Time 21 اکتوبر ، 2020
بلاگ

روٹی کے گرد بھوک کا رقص

فوٹو: فائل 

جلسہ بازیوں نے بری طرح بیزار اور بور کر دیا ہے، بچپن سے یہی تماشے اور تماش بین دیکھ رہا ہوں، نہ کل سکون تھا نہ آج اور نہ آنے والے دنوں میں کوئی امکان دکھائی دیتا ہے بلکہ بد سے بدتر ہو تو حیرت نہیں ہو گی۔

جو لوگ آج ادھم مچا رہے ہیں، ماضی میں یہی کار خیر ان کے بڑے سرانجام دیا کرتے تھے، برسوں پہلے بچے تھے جب ایوب خان اور چینی مہنگی ہونے پر ’’ہائے ہائے‘‘ ہوتے دیکھی، وہ دن جائے آج کا آئے وہی دال روٹی، گھی چینی، ٹماٹر ٹینڈوں کا ماتم جاری ہے۔ 

یوں محسوس ہوتا ہے کہ نسل در نسل ہم لوگ پیدا ہی اس لیے ہوتے ہیں کہ روٹی کا طواف کرتے کرتے قبروں میں اتر جائیں، عشروں پہلے بھی آٹا اور شرم کا گھاٹا پہلو بہ پہلو تھے۔

عوامی انقلابی شاعر نے لکھا ’بیس روپے من آٹا اس پر بھی ہے سناٹاصدر ایوب زندہ باد‘ اور آج آٹا کس بھاؤ ہے؟ اور کرو جلسے جلوس، یہ اور مہنگا ہو گا.....اور جلسہ، اک اور جلوس، اک اور اتحاد، کوئی نیا فساد کہ ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق لیکن نہ عوام نے کچھ سیکھا نہ ان کے راہنماؤں نے جن کی راہنمائی ہمیں یہاں تک لے آئی۔

دونوں ہی نہلے پہ دہلے ہیں کہ ہر بار ایک جیسی حرکت کر کے سمجھتے ہیں کہ اس بار نتیجہ مختلف ہو گاتقریباً پچاس پچپن سال پہلے اک پنجابی فلم ریلیز ہوئی جس کا نام ہی ’روٹی‘  تھا، اکمل نامی اداکار اس فلم کا ہیرو تھا جس کے اس گیت نے دھوم مچا دی اور مدتوں زبان زد عام رہا۔

روٹی دا سوال اے جواب جدا روٹی اے وڈے وڈے لوکاں لئی ایہہ گل بڑی چھوٹی اے اگر ممکن ہو تو یہ فلم ’شرطیہ نئے پرنٹ‘ کے ساتھ دوبارہ ریلیز کر دی جائے تاکہ نئی نسل بھی جان سکے کہ ان کی اس کرئہ ارض پر تشریف آوری کا اصل مقصد کیا ہے۔’دو وقت کی روٹی‘ پچھلے دنوں وزیراعظم نے حیران ہو کر کہا تھا ’ہم سائنس دان کیوں نہیں پیدا کر سکتے‘۔

میں اس بیان پر ابھی تک ہنس رہا ہوں کہ جن کی زندگیوں کا اول و آخر، ظاہر و باطن ہی دو وقت کی روٹی قرار پائے وہاں تخلیق اور تعمیر کا کیا کام؟ صدیوں کی بھوک ہے جو دور دور تک ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ 

گواہی چاہیے تو اپنے ان محاوروں پر ہی غور کر لیں، جس کے گھر دانے اس کے کملے بھی سیانے پیٹ پڑا چارہ، کودنے لگا بیچارہ روٹی کی پٹ پٹ تو بہرے بھی سن لیتے ہیں، جہاں پہ دیکھو توا پرات وہاں پہ ناچو ساری راتچپڑی ہوئی اور دو دومنہ کھائے تو آنکھ شرمائےکوٹھی اناج کوتوالی راجاَن اور رَن کا کیا نام رکھنانیت کھوٹی، رزق نہ روٹی پہلے پیٹ پوجا پھر کام دوجاسستا گیہوں گھر گھر پوجا جب تک رکابی بھات۔

میرا تیرا ساتھبھجن، بھوجن اکانت بھلاپوری سے پوری پڑے تو سب نہ پوری کھائیں پڑی فجر چولہے پہ نظرمل گئی تو روزی نہ ملی تو روزہ جس کے ہاتھ ڈوئی، اس کا ہے ہر کوئیجس کی تیغ اس کی دیگدیگ ہوئی دم، حاضر ہوئے ہمہاتھ میں لانا پات میں کھانا ساس گئی گائوں۔

بہو کہے کیا کیا کھاؤں بھوک بھات، دال روٹی میں ڈوبے ہوئے ان چند محاوروں سے ہی اندازہ لگا لیں کہ ’بھوک‘ ڈی این اے میں ہی نہیں، صدیوں سے مقدر میں بھی جلی حروف سے خوشنما ہینڈ رائیٹنگ میں لکھی ہے اور مجھے یقین ہے کہ دنیا کی کسی اور زبان میں بھوک اور روٹی کے گرد رقص کرتے اتنے محاورے نہیں ہوں گے جتنے ہماری زبان کا زیور ہیں۔

شادی بیاہوں پر ’روٹی کھل گئی‘ کا نعرہ سنتے ہی جس طرح شرفا اور معززین ’کھلتے‘ ہیں، قابل دید منظر ہوتا ہے، تو جہاں صدیوں سے زندگی بنیادی ترین ضرورتوں کے گرد ناچ رہی ہو، ’روٹی کپڑا مکان‘ کے نعرے نے بڑے بڑے برج الٹا دیے ہوں، وہاں ایک خوبصورت معاشرے کی بنیاد کون رکھے گا؟

کیسے رکھے گا؟ تہتر برس بعد بھی جہاں بھوک، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسئلے نہ صرف موجود ہوں بلکہ ان میں تیزی سے اضافہ بھی ہو رہا ہو..... وہاں خواب فروشی کے علاوہ کون سا دھندا چل سکتا ہے؟ اپوزیشن یہی کچھ کر رہی ہےاور حکومت بھی بھوک بازار کھلا ہے، نانبائی کی دکان بند ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔