خلائی تحقیق کا تاریخی دن، چاند کی سطح پر پانی کی موجودگی کے واضح ثبوت مل گئے

اس دریافت سے مستقبل میں چاند پر پانی تک رسائی کے منصوبے میں مدد ملے گی،ماہرین،فوٹو:ناسا

امریکی خلائی ادارے ناسا نے چاند کی سطح پر پانی کی موجودگی کے حتمی ثبوت ملنے کا اعلان کیا ہے۔

چاند پر مالیکیولر (سالماتی) پانی کی موجودگی کا انکشاف ناسا کی جانب سے چاند پر خلائی اڈا بنانے کی امیدوں کو تقویت فراہم کرے گا اور امید ہے کہ چاند ہی کے قدرتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے خلاء نورد اس اڈے میں قیام کرسکیں گے۔

اس تحقیق کے نتائج دو ریسرچ پیپرز کی صورت میں جریدے 'نیچر آسٹرونومی' میں شائع ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس سے قبل چاند کی اندرونی (سورج کی روشنی سے اوجھل) حصوں میں پانی کی موجودگی کا پتہ چلا تھا تاہم اب سائنسدانوں کو چاند کی سطح پر اس حصے پر بھی پانی کے مالیکیول ملے ہیں جہاں سورج کی روشنی موجود ہوتی ہے۔

تحقیق میں شامل امریکی ریاست میری لینڈ میں واقع ناسا کے مرکز سے وابستہ ڈاکٹر کیسی ہونیبال کے مطابق چاند کی مٹی میں پانی کی مقدار تقریباً ایک ہزار کلوگرام مٹی میں 12 اونس (354 ملی لیٹر) یعنی 12 اونس فی مربع میٹر پائی گئی ہے۔

ناسا کے ایک عہدیدار جیکب بلیچرکاکہنا ہے کہ محققین کو ابھی چاند پر موجود پانی کے ذخائر کی نوعیت کو مزید سمجھنا ہے، اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ مستقبل میں چاند پر جانے والے محققین اس  پانی تک کس طرح رسائی حاصل کرسکیں گے اور اسے استعمال کرسکیں گے۔

خیال رہے کہ چاند پر پانی کی موجودگی کی پہلے بھی علامات ملتی رہی ہیں تاہم حالیہ دریافت سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی وہاں پر سابقہ تصور کے مقابلے میں کہیں زیادہ وافر مقدار میں موجود ہے۔

ایک برطانوی ماہر ڈاکٹر ہنا سارجنٹ کے مطابق اس نئی دریافت نے چاند پر پانی کے ممکنہ ذخائرکے مزید آپشنز فراہم کیے ہیں اور چاند پر خلائی اڈا کہاں بنے گا اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ چاند پر پانی کہاں موجود ہے۔

گذشتہ ماہ ناسا نے اعلان کیا تھا کہ وہ 2024 میں چاند پر تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون اور اس کے ساتھ ایک مرد کو بھیجے گا تاکہ 2030 میں ایک بڑی چھلانگ لگاتے ہوئے مریخ پر انسان کو بھیجنے کی تیاری کیا جاسکے۔

ڈاکٹر ہنا کا کہنا ہے کہ چاند کے مقامی وسائل خاص طور پر پانی استعمال کرنے کا مطلب ہے کہ خلائی تحقیق کے میدان میں مزید وسعت اور پائیداری آئے گی۔

خیال رہے کہ پانی کی موجودگی کی حالیہ دریافت صوفیہ نامی ہوائی رصدگاہ سے ہوئی ہے، یہ رصدگاہ ایک بوئنگ 747 طیارہ ہے جو کہ تقریباً زمین کی فضا سے کافی اوپر  پرواز کرتا ہے اور اس کے ذریعے خلا کا براہ راست مشاہدہ کیاجاسکتا ہے۔

اس رصد گاہ کی انفرا ریڈ ٹیلی اسکوپ کے ذریعے ماہرین نے چاند پر پانی کے مالیکیولز کی موجودگی کا پتہ لگایا۔

ایک اور تحقیق کے مطابق سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چاند کی سطح کے تقریباً 40 ہزار مربع میٹر علاقے میں پانی موجود ہوسکتا ہے۔

برطانوی ماہر ڈاکٹر ہنا کا کہنا ہے کہ نئی دریافت سے چاند پر موجود ایسی جگہوں کی فہرست میں اضافہ ہوجائے گا جہاں ہم خلائی اڈا بنا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سائنسدانوں کا منصوبہ ہے کہ آئندہ چند سالوں میں چاند کے قطبی حصے میں مشن بھیجے جائیں جبکہ طویل المدتی بنیاد پر چاند پر مستقل آبادی بنائے جانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چاند پر موجود پانی کو نکالنے سے مستقبل میں چاند پر راکٹ کا ایندھن بنانا سستا عمل ہوگا اور مستقبل میں چاند سے لوگ واپس زمین پر آنے یا وہاں سے کہیں اور جانے کے لیے وہیں موجود پانی سے ہائیڈروجن اور آکسیجن بناسکیں گے جو کہ عام طور پر  خلائی گاڑیوں یاراکٹ میں استعمال ہوتے ہیں، اس طرح خلائی سفر کے اخراجات میں کمی ہوگی اور چاند پر خلائی اڈا بنانا اور استعمال کرنا بھی زیادہ سستا ہوسکتا ہے۔

مزید خبریں :