11 نومبر ، 2020
جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے زیادہ منظم جماعت ہے جس کے پاس تنظیم بھی ہے اور اس کے اندر خاصی حد تک جمہوریت بھی ہے مگر پھر بھی ان کی سیاست میں ایک ’خلا‘ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کو انتخابی کامیابی کم نصیب ہوئی جبکہ اس کے بعد آنے والی جماعتیں زیادہ کامیاب رہیں جس کی تازہ مثال پاکستان تحریک انصاف ہے۔
جماعت کے مقابلے میں دیگر بڑی پارٹیوں نے دائیں، لبرل اور مختلف مسلکوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنی جانب زیادہ راغب کیا۔
شاید پاکستان جیسے ملک کے پارلیمانی نظام میں یہی ایک کامیاب بیانیہ ہے اور یہی مذہبی جماعتوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ان کی حیثیت ایک طاقتور اور مضبوط پریشر گروپ سے زیادہ نہیں رہی۔
جماعت کے مقابلے میں جمعیت علمائے اسلام کو 70 سے لیکر آج تک زیادہ انتخابی کامیابیاں ملیں، مولانا مفتی محمود مرحوم سے لے کر انکے بیٹے مولانا فضل الرحمٰن تک جے یو آئی نے پارلیمانی سیاست زمینی حقائق سامنے رکھتے ہوئے کی۔
جماعت کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے ایک بار مجھے بتایا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ جے یو آئی کے ہزاروں مدرسے ہیں جن میں لاکھوں کی تعداد میں طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان میں سے ان کو کارکن ملتے رہتے ہیں۔
پاکستان نہ سعودی عرب ہے، نہ ترکی یا چین ہے اور نہ ہی ایران۔ ہم نے ایک جمہوری جدوجہد کرتے ہوئے ملک بنایا اور آج اس کے آئین کو بنے 50 سال ہو گئے ہیں۔ پارلیمانی نظام کو ہی یہاں سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے گو کہ یہاں صدارتی نظام سے لےکر مارشل لا تک کے طویل تجربات بھی ہوتے رہے۔
پاکستان ہجرت کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق دائیں بازو کے نظریات سے رہا مگر انہوں نے ہمیشہ قدامت پرست نظریات کو مسترد کیا۔
بانی جماعت مسلم لیگ کے اندر دائیں اور بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے لوگ تھے۔ شاید اسی رسہ کشی میں بنگال کے لوگوں کو نیچا دکھانے کیلئے مختلف انداز میں شب خون مارا گیا اور نتیجے میں پہلے دس برس میں نہ ہی مستحکم نظام بن پایا اور نہ ہی کوئی وزیر اعظم ٹھہر پایا جس کا نتیجہ 1958کے مارشل لا کی صورت میں سامنے آیا اور شاید وہیں سے پاکستان کی سیاسی سمت کا تعین کرنے میں اداروں کی مداخلت بڑھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور جمہوریت کے نام پر تجربات شروع ہو گئے۔
ایسے میں جماعت اسلامی مسلم لیگ کے متبادل کے طور پر سامنے آ سکتی تھی مگر شروع میں ان کے کچھ رہنما پارٹی سے اس بنیاد پر الگ ہوئے کہ وہ انتخابی سیاست کے خلاف تھے، دوسرے جماعت نے اپنے اندر دیگر نظریات اور معتدل لوگوں کو قبول نہیں کیا۔
جماعت میں کبھی عورت کی حکمرانی مسئلہ نہیں رہی۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح کی ایوب خان کے مقابلے میں حمایت اس کی بڑی مثال ہے۔ جماعت کے اندر ایک انتہائی منظم خواتین ونگ موجود ہے۔ وہ پارلیمان میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے ذریعے موجود ہیں۔
1970 کے الیکشن میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ جماعت کو خاطر خواہ کامیابی ملے گی مگر وہ تین سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل نہ کر سکی۔ اس کے مقابلے میں جے یو آئی اس وقت کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
1973 کا آئین بنانے میں بھی جماعت نے اہم کردار ادا کیا۔ بھٹو کی شاید سب سے بڑی سیاسی غلطی حکومت میں آنے کے بعد سرحد اور بلوچستان کی حکومتوں کا خاتمہ اور بعد میں نیپ پر پابندی تھی۔
دوسری طرف سندھ میں جماعت نے جمعیت علمائے پاکستان کے ساتھ مل کر سندھی زبان کے بل اور کوٹہ سسٹم کی مخالفت کی اور تحریک چلائی جس کی وجہ سے بھٹو نے ایک طرف سرحد اور بلوچستان کی وجہ سے بائیں بازو کی مخالفت مول لی اور پھر شہری سندھ بھی خلاف ہو گیا۔ اس سب کے باوجود بقول مولانا شاہ احمد نورانی وہ 1977 کا الیکشن جیت جاتا اگر کچھ نشستوں پر دھاندلی نہ ہوتی۔تحریک چلی اور مارشل لا لگ گیا۔
سیاسی طور پر جماعت کو سب سے زیادہ نقصان جنرل ضیا ء الحق کی حمایت سے پہنچا، خاص طور پر 1984میں ضیاء کے ریفرنڈم کی حمایت اور اچانک متحدہ طلبہ محاذ کی طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف چلنے والی تحریک سے اسلامی جمعیت طلبہ کےعلیحدہ ہونے کا فیصلہ اور وہ بھی ایسے وقت میں جب کامیابی قریب تھی۔
شاید جماعت اگر میاں طفیل کو طویل عرصے امیر نہ رکھتی اور پروفیسر غفور جیسے معتدل مزاج سیاست دان کو امیر بناتی تو زیادہ فائدہ ہوتا۔ غفور صاحب جماعت کے ریفرنڈم اور طلبہ تحریک والے فیصلوں سے نالاں تھے۔ وہ بھٹو کی پھانسی کے بھی خلاف تھے۔ جماعت اسلامی کا سب سے دلچسپ اور پارٹی کے اندر متنازع دور قاضی حسین احمد کا رہا۔
قاضی صاحب پارٹی میں بنیادی اصلاحات لانا چاہتے تھے۔ انہوں نے پاسبان اور پاکستان اسلامک فرنٹ بنانے کے تجربات بھی کئے مگر پارٹی کے قدامت پرست ان کے مخالف ہو گئے۔ ایک ایسا موقع بھی آیا کہ انہیں استعفیٰ دینا پڑا مگر پھر شوریٰ کے کہنے پر واپس لے لیا۔
جماعت نے شاید سید منور حسن مرحوم کے ساتھ بھی زیادتی کی۔ وہ عمر کے اس حصے میں امیر بنے جب صحت اجازت نہیں دیتی تھی۔ اسی وجہ سے ایک دور کے بعد معذرت کر لی گو کہ ان کا نام پارٹی الیکشن کے امیدواروں میں موجود رہا۔ شاید جماعت حکیم اللہ محسود کے حوالے سے ان کے بیان کا بوجھ نہ اٹھا پائی۔ اس وقت جماعت کے امیر محترم سراج الحق ہیں۔
اس وقت جماعت اپنے آپ کو مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور پی ٹی آئی کے مقابلے میں ایک متبادل کے طور پر پیش کر رہی ہے، اور شاید اسی وجہ سے اس نے خود کو اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے الگ رکھا اور ’’سولو فلائٹ ‘‘ کا فیصلہ کیا۔
مگر جماعت کا اصل مسئلہ اب بھی سیاسی بیانیے کا ہے۔ وہ خود کو دائیں بازو کی جماعت کے طور پر منوانا چاہتی ہے یا اپنے پرانے نظریات پر ہی قائم رہ کر سیاست کرنا چاہتی ہے۔
اس وقت تو جماعت ایک نرسری کے طور پر کام کر رہی ہے۔ جہاں طلبہ سیاست کے بعد نوجوان یا تو پی ٹی آئی میں چلے جاتے ہیں یا مسلم لیگ میں، شاید جماعت کی سیاست میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔