19 نومبر ، 2020
بار بار ایک ہی عمل دہرانے کے بعد ہر بار مختلف نتیجہ کی امید رکھنا پاگل پن نہیں تو کیا ہے ؟ مجھے پاکستان کا ایک بھی ایسا الیکشن یاد نہیں جس کے بعد دھاندلی کا ماتم نہ ہوا ہو اور ظاہر ہے یہ ماتم ہارنے والوں کی طرف سے ہی ہوتا ہے ۔
دوسری طرف عدالتی فیصلوں کا بھی عموماً یہی حال ہے ۔فیصلہ حق میں آ گیا تو بھنگڑے ڈالنے اور ڈھول بجانے لگتے ہیں، خلاف آ جائے تو الزام لگانے لگتے ہیں کہ ہماری سیاست بددیانت ، نااہل اور کم ظرف ہی نہیں .... بے حس اور بے شرم بھی ہے ۔یہ ’’کمیونٹی ‘‘ کیا کچھ نہیں بھگت چکی لیکن مجال ہے جو کبھی سبق سیکھا ہو۔
’’گریس‘‘ نام کی کوئی شے ان کے قریب سے بھی نہیں گزری۔امریکہ میں تو کوئی ٹرمپ صدیوں نہ سہی، کئی کئی عشروں بعد آتا ہوگا جبکہ یہاں تو ’’ٹاپ ٹوٹوء‘‘ (TOP TO TOE)یعنی اوپر سے نیچے تک ٹرمپ ہی ٹرمپ ہیں۔ ہماری بنیادی بدقسمتی یہی ہے کہ دو اہم ترین شعبوں میں آتے ہی نکمے اور نااہل ترین لوگ ہیں۔ اول سیاست اور دوم؟ آپ خود اندازہ لگا لیں میں کس فتنے کی بات کر رہا ہوں کہ مستثنیات بہرحا ل اپنی جگہ۔
وزیر اعظم عمران خان پیدل جاکر بہت دور کی کوڑی لائے ہیں کہ اگلے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ ہو گی تاکہ جو ہارے وہ مانے بھی تو ’’شوق دا واقعی کوئی مُل نئیں‘‘۔آزما کے دیکھ لیں کیونکہ نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی رہے گا۔ ابو جہل بھی ابو جہل اس وقت کہلایا جب اس نے ڈھٹائی سے کہا کہ دعوت اسلام ہے تو برحق لیکن میں مانوں گا نہیں۔
بھارت کو ہی دیکھ لیں، دنیا کی سب سے بڑی ’’جمہوریت‘‘ ہے لیکن بے شرمی بے حیائی کے وکٹری اسٹینڈ پر درمیان میں کھڑی ہے کہ مرغے کی ایک ٹانگ والا محاورہ بھی یونہی ایجاد نہیں ہوا اور ’’آٹا گوندھتی ہلتی کیوں ہے ‘‘کا اک اپنا بیک گراؤند ہے۔ اور تو اور جمہوری سپرپاور کے سابق صدر کو ہی دیکھ لیں جو تاریخی ڈھٹائی کے ساتھ میں نہ مانوں کا ورد جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ یہ تو پاکستانی سیاست اور سیاست دان ہیں۔ یہ الیکٹرانک ووٹنگ نہیں الیکٹرک شاکس کا کیس ہے کہ چند امراض کا علاج بجلی کے جھٹکوں بغیر نہیں ہو سکتا۔ میں جانتا ہوں بہت سے مہذب لوگوں کو میری رائے ہضم نہیں ہو گی اور بہت ناگوار گزرے گی لیکن تھوڑا صبر کرلیں، مٹھ رکھیں، آئندہ انتخابات کے نتائج پر نتارہ ہو جائے گے۔
ہم عجیب لوگ ہیں جو عشروں سے دیمک زدہ لکڑی سے فرنیچر بنانے کی پریکٹس کر رہے ہیں، ہم زنگ زدہ کچے لوہے سے ڈھالیں اور تلواریں بنا رہے ہیں، ہم پانی پر مصوری فرما رہے ہیں اور کیچڑ سے ناقابل تسخیر قلعے تعمیر کر رہے ہیں۔ یہ یقیناً میری ہی بدنصیبی اور بے وقوفی ہو گی کہ میں نے اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکمرانوں کو فائر فائیٹنگ کے علاوہ کچھ اور کرتے نہیں دیکھا۔
سارا فوکس فوری قسم کے مسئلہ مسائل کی طرف ہوتا ہے جس کا زیادہ تر تعلق بھوک ننگ روکڑے قرضے کے ساتھ ہی ہوتا ہے سو شاخیں چھانگنے پر ہی لگے رہتے ہیں، مسائل کی ’’جڑوں‘‘ پر کوئی توجہ نہیں دیتا سو جب تک ساری توجہ ’’شاخوں‘‘ پر رہے گی، بدی کا یہ درخت پھلتا پھولتا رہے گا۔ یہ درخت خون پیتا رہے گا، اس پر انسانی کھوپڑیوں کے ڈراؤنے بدبودار پھول کھلتے رہیں گے۔ شاخوں کو جتنا کاٹو گے وہ اتنی ہی گھنی ہوتی جائیں گی۔ گروتھ ریٹ اگر کبھی ہوا بھی تو بڑھتی بھوکی آبادی کا گروتھ ریٹ اسے زندہ نگلتا رہے گا۔ پرائمری ایجوکیشن کے گھٹیا پن کی وجہ سے خام مال بد سے بدتر بلکہ بدترین ہوتا چلا جائے گا اور تمام تر نام نہاد ’’اصلاحات‘‘ دھری کی دھری رہ جائیں گی۔
جنہیں کتے کے بھونکنے اور راگ بھیر ویں کا فرق معلوم نہیں وہ اگلی نسلوں کے نصاب ترتیب دے رہے ہیں۔ سیلاب کو وائپرز سے ہینڈل کرنے والے ملاح بنے ہوئے ہیں، آتش فشاں کی آگ کو آنسوؤں سے بجھانے کی حکمت عملی بن رہی ہے۔ زلزلوں کو بددعاؤں سے باندھ کر روکنے کی پاکیزہ کوششیں جاری ہیں۔
میں نے پلکوں سے دریا پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
انہی کالموں میں پہلے بھی کئی بار اشاروں کنایوں میں عرض کر چکا ہوں کہ سرکاری سکولوں کا سواستیاناس تو کب کا ہو چکا، اب مہنگے پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی عجیب و غریب قسم کے نشوں کی لپیٹ میں آتے جا رہے ہیں اور نشے بھی ایسے جن کے ہم جیسوں نے کبھی نام بھی نہ سنے تھے۔ روک سکو تو ابھی روک لو ورنہ رہا سہا بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔
عثمان بزدار کا تازہ ترین بیان ہے کہ ’’اب وزیر اعلیٰ بن کر دکھاؤں گا ‘‘۔باقی بعد میں دیکھا جائے گا فی الحال تو وزیر اعلیٰ نجی اسکولوں کے باہر منشیات فروشوں کو وزیر اعلیٰ بن کر دکھا دیں کہ لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں ان کی زد میں آ رہی ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔