28 نومبر ، 2020
سیاست کیا ہے؟ جو آپ کو ناپسند کرتے ہیں انہیں اپنے حسن سلوک سے کم از کم نیو ٹرل کر دینا اور جو نیوٹرل قسم کے ہوں اُنہیں اپنوں میں شامل کر لینا اور جو اپنے ہوں ان کی اپنائیت کو قائم رکھنا۔
سیاستدانی چٹانی نہیں پانی جیسے رویے مانگتی ہے اور پانی کیسے بی ہیو کرتا ہے؟ پانی کو ہر طرف سے روک لو تو وہ دھیمے دھیرے رسنا شروع کر دیتا ہے، جنہیں مندرجہ بالا کی سمجھ نہ آئے انہیں حضرت امیر معاویہ ؓ کی اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر کسی اجڈ ترین بدو سے بھی میرا تعلق قائم ہوجائے اور وہ کسی بات پر خفا ہو کر تیز رفتار اونٹنی پر سوار ہو کر صحرا کی جانب بھاگ پڑے اور اس کے میرے درمیان صرف کچے سوت کا دھاگا ہو تو میں وہ دھاگا بھی ٹوٹنے نہیں دوں گا۔
عمران خان کی ریلیشن شپ مینجمنٹ ہمیشہ سے کمزور رہی ہے، رہی سہی کسر اقتدار نے پوری کر دی یعنی کریلا نیم چڑھ گیا، نہلے پہ دہلا ان لوگوں کا جن جپھا جو سیاست کی الف بے سے بھی آشنا نہیں لیکن چلو ...’’دیر آید درست آید‘‘۔ ’’بڑی دیر کی خان نے جاتے جاتے‘‘ لیکن بالآخر چوہدری شجاعت حسین کی عیادت کیلیے اس گھر پہنچ ہی گیا جہاں اسے بہت پہلے پہنچ جانا چاہیے تھا کہ یہ گھرانہ ہماری سیاست میں انتہائی منفرد گھرانہ ہے جن کی روایات پر نہ اقتدار اثرانداز ہوتا ہے نہ اپوزیشن، رکھ رکھاؤ، وضعداری، شرافت و نجابت میں سدا بہار خاندان جنہوں نے کبھی کسی کی پشت میں چھرا نہیں گھونپا۔
ہمیشہ وقار کو اقتدار پر ترجیح دی اور چوہدری ظہور الٰہی مرحوم سے لیکر مونس الٰہی تک ہر قیمت پر اقدار کی حفاظت کی لیکن شاید بہت سے لوگوں کے لیے ذاتی طور پر بہتر ہی یہ تھا کہ عمران کو ان سے بدگمان رکھتے کہ ان لوگوں سے تعلق بہت سے سیاسی یتیموں کیلیے نقصان دہ ہو سکتا تھا۔
خودغرضی یا لاعلمی صحیح بات کرنے نہیں دیتی ورنہ عمران خان کے نزدیک کوئی ایک آدھ تو ایسا ہوتا جو اسے بتا سکتا کہ چوہدری پرویز الٰہی کی کامیاب ترین وزارت اعلیٰ کے دوران ن لیگ کے میڈیا منیجرز نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ مونس الٰہی کو ٹارگٹ کیا اور کردار کشی کی مہم چلائی کیونکہ وہ اس سے خوفزدہ تھے کہ چوہدری ظہور الٰہی کا گھرانہ تیسری نسل کی سیاست تک نہ پہنچ پائے کہ وہ پنجاب میں صرف اسی ایک خاندان سے خوف زدہ تھے۔
مونس بھی اپنے سگے درویش ٹائپ بھائی راسخ اور اپنے بےنیاز قسم کے کزنز سالک وغیرہ کی طرف سیاست سے لاتعلق یا نیم لاتعلق رہتا تو کوئی اس کے نام تک سے بھی واقف نہ ہوتا۔
اُس کا اکلوتا جرم ہی یہ تھا کہ وہ ایکٹو، سرگرم اور فعال ہو گیا جو ظاہر ہے ’’شرافت کی سیاست ‘‘ کے علمبرداروں کو ہضم نہیں ہو سکتا تھا سو وہ ’’شیطانی میڈیا مشین‘‘ حرکت میں آگئی جس نے کبھی ہر قسم کی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ اور ماؤں جیسی بیگم نصرت بھٹو مرحومہ کو انتہائی شرمناک اور غلیظ ترین انداز میں سکینڈلائیز کرنے کی قابل نفرت مہم چلائی تھی تو بھلا نوجوان، اعلیٰ تعلیم یافتہ، سمارٹ مونس الٰہی بھلاکس باغ کی مولی تھا۔
حماقت ان سے یہ ہوئی کہ ان لوگوں نے منہ توڑ جواب دینے کی بجائے اپنی مخصوص وضعداری کے سبب اس بے بنیاد مہم کو بالکل ہی نظرانداز کر دیا حالانکہ ہر کوئی جانتا تھا کہ مونس الٰہی کو کون لوگ کیوں ٹارگٹ کر رہے ہیں ....پھر جونہی چوہدری پرویز الٰہی کا دور ختم ہوا، مونس والا موضوع ہی ختم ہو گیا لیکن چھوڑو اور اس موضوع پر چوہدری شجاعت فیم مٹی ڈالو بلکہ ٹھیٹھ پنجابی میں ’’مٹی پائو‘‘ کہ سیاست میں کیا، زندگی میں بھی مڑ مڑ کے پیچھے دیکھنے کا وقت نہیں ہوتا۔
عمران انجانے میں ن لیگ پروپیگنڈا کا شکار ہوا لیکن دیر سے ہی سہی، اصل بات سمجھ آ گئی ہے، اگر آ گئی ہے تو چوہدریوں کو حریف نہیں، قابلِ اعتماد ساتھی اور حلیف سمجھے اور کسی غیر جانبدار شخص سے ان کے مزاج سمجھے جو عزت کے جواب میں کئی گنا عزت دینے کی روایت رکھتے ہیں اور لاتعلقی کے جواب میں گریس فل لاتعلقی جن کا شعار ہے۔
میں نے عمران خان کی چوہدری خاندان کے گھر آمد کو موضوع نہیں بنایا تھا لیکن 27نومبر کے ’’جنگ‘‘ کے صفحہ اول پر اک ننھی منی سی خبر دیکھ کر رہا نہیں گیا، خبر کی صرف سرخیاں ملاحظہ فرمائیں، ’’دائیں بائیں کے لوگ آپ کو درست بات نہیں پہنچاتےچوہدری شجاعت حسین، مجھے پرویز الٰہی کی طرح سمجھیں‘‘،عمران خان، ’’ملاقات کی اندرونی کہانی ‘‘عمران خان کو اصل بات اگر واقعی سمجھ آ گئی ہے تو سمجھیں پی ٹی آئی کا پینڈا بہت آسان ہوگیا کہ یہ خاندان صحیح معنوں میں تعلق نبھانا جانتا ہے کہ خاندانوں کی بھی ایک تاریخ ہوتی ہے۔عمران کو چاہیے اوکھا سوکھا ہو کر چوہدری شجاعت کی کتاب پڑھ یا سن لے، بہت کچھ سمجھ آ جائے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔