08 دسمبر ، 2020
عمران خان نے ایک ایسی بات کہی ہے جو میرے سر کے اوپر سے گزر گئی۔ پندرہ بیس منٹ سوچتا رہا کہ اِس پر تبصرہ کروں یا نظرانداز کر دوں لیکن معاملہ کیونکہ ’’میرے‘‘ میڈیا کا تھا اِس لئے نظرانداز نہیں کر سکا۔
وزیراعظم کا یہ کہنا خاصا بےبنیاد ہے کہ اُن کی حکومت میڈیا کے نشانے پر ہے کیونکہ وزیراعظم کا سیاسی وجود تو ہے ہی میڈیا کا مرہونِ منت، جس کو اکثر لوگ اُن کی کرشماتی شخصیت، ورلڈ کپ، شوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی وغیرہ کے ساتھ کنفیوژ کر دیتے ہیں جو سو فیصد غلط ہے کیونکہ 24، 25برس پہلے جب عمران خان نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تو...
1۔ وہ آج سے 24، 25برس پہلے کم عمر اور زیادہ گلیمرس تھا، کچھ نہ ہوا
2۔ ورلڈ کپ بھی نسبتاً بہت ’’تازہ‘‘ تھا، کچھ نہ ہوا
3۔ اس طرح کینسر ہسپتال والا ’’معجزہ‘‘ بھی نیا نیا تھا لیکن نتیجہ ’’صفر‘‘ نکلا کہ نہ کرشمہ کام آیا، نہ سماجی خدمات نے کوئی کام دکھایا اور سفر دو عشروں پلس پر محیط ہو گیا۔
اِس برے وقت بلکہ بدترین وقت میں اگر میڈیا عمران خان کا ہاتھ نہ تھامتا، اُسے سہارا نہ دیتا، سیاسی طور پر زندہ نہ رکھتا تو آج ’’تحریک انصاف‘‘ بھی ’’تحریک استقلال‘‘ ہوتی اور شاید عمران خان بھی ایئر مارشل اصغر خان ہو چکا ہوتا۔
یہ بھی یاد رہے کہ ایئر مارشل اصغر خان بھی قومی ہیرو تھے اور اُن کی دیانت، شرافت اور مستقل مزاجی بھی ضرب المثل کی سی حیثیت رکھتی تھی۔ اصغر خان کی شخصیت غیرمتنازعہ اور ہر قسم کے سکینڈلز سے پاک تھی لیکن نتیجہ؟
عمران خان کی خوش قسمتی تھی کہ اصغر خان مرحوم کے برعکس اُسے ایک طرف تو پرنٹ میڈیا کے کچھ بااثر لوگوں کی سپورٹ حاصل رہی تو دوسری طرف الیکٹرونک میڈیا کا ’’جن‘‘ بوتل سے باہر آ گیا، جس کا سو فیصد کریڈٹ پرویز مشرف صاحب کو جاتا ہے کہ اُن کی جگہ اگر کوئی سیاستدان ہوتا تو کبھی یہ حرکت نہ کرتا۔ الیکٹرونک میڈیا نے ڈولتے، لڑکھڑاتے عمران خان کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رکھا اور اقتدار تک پہنچا دیا۔
اِس سارے پروسیس میں رہی سہی کسر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی بدترین پرفارمنس نے پوری کر دی اور اُن سے اکتائے ہوئے لوگ آہستہ آہستہ عمران خان کی طرف متوجہ ہونے لگے۔
اِس سارے کھیل میں عمران خان کا اصل اور اکلوتا کریڈٹ یہ ہے کہ وہ مایوس کن حالات میں بھی ڈٹا رہا جس کا کریڈٹ سو فیصد اُس کو جاتا ہے لیکن اِس میں شخصیت، ورلڈ کپ، کینسر ہسپتال، نمل یونیورسٹی کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ بصورت دیگر وہ پہلے چند برسوں میں ’’ٹیک آف‘‘ کر گیا تھا۔
کچھ اور ’’عوامل‘‘ جو بعد میں اُسے ’’نصیب‘‘ ہوئے اُس کے پیچھے بھی میڈیا ہی تھا جس نے اُسے سیاسی طور پر زندہ رکھا اور فیڈ آؤٹ نہیں ہونے دیا ورنہ اِن عوامل کی نوبت ہی نہ آتی اور عمران خان ’’مینار پاکستان‘‘ تک پہنچنے سے پہلے ہی ’’قصہ پارینہ‘‘ بن چکا ہوتا، سو میرے نزدیک میڈیا عمران خان کا حقیقی محسن ہے۔
آج میڈیا جیسے ’’محسن‘‘ کے بارے میں عمران کا یہ کہنا ہے کہ اُس کی حکومت میڈیا کے نشانے پر ہے، اک ایسی خطرناک سوچ ہے جس پر نظرثانی کرنا ہی بہتر ہوگا کیونکہ یہ حکومت سوائے اپنی پرفارمنس کے اور کسی کے نشانے پر نہیں کہ اپوزیشن کی تحریک کا فیول ہی حکومت کی پرفارمنس ہی ہے۔
عمران نے شکوہ بھی کیا کہ ’’حکومتی کارکردگی صحیح نہیں بتائی جاتی‘‘ تو بات جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے لیکن اِس کے پیچھے بھی میڈیا کی بدنیتی بہت کم اور خود عمران حکومت کی نااہلی کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ حکومت میڈیا کے ساتھ پوری طرح کمیونیکیٹ کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔
یہ لوگ تو آج تک عوام کو سادہ سی بات نہیں سمجھا سکے کہ جب اقتدار ملا تو ملک کس حال میں تھا؟ یہ نہیں جانتے کہ اس کھیل میں تکرار، ہیمبرنگ، ری انفورٹمنٹ اور بار بار یادہانیاں کتنی اہم ہوتی ہیں۔
دیکھ اے دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں پانی کی جہاں دراد گرے
لیکن اُنہیں تو یہ شعر بھی سمجھ نہیں آتا اور نہ کبھی ان کا دھیان اپنے گریبان کی طرف جاتا ہے جس میں جھانک کر دیکھیں کہ خود اُنہوں نے میڈیا کے ساتھ کیا کیا ہے۔
پاکستانی میڈیا کے سرخیل میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ ہونے والا سلوک اِسی حکومت میں ہونا تھا، تو کبھی نہ بھولیں کہ میڈیا ایک مستقبل حقیقت ہے بلکہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔