16 دسمبر ، 2020
سوچتا ہوں دسمبر کو کیسے یاد رکھوں۔ 16؍دسمبر 1971یاد کروں یا 16؍دسمبر 2014؟ دونوں ہی دن کسی بھی مردہ قوم کو زندہ کرنے کے لئے کافی ہیں مگر لگتا ایسا ہے کہ ہم اُن سے بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ سوچتا ہوں دسمبر کو کیسے یاد رکھوں۔
؍7دسمبر 1970کو یاد کروں کہ جب پہلی بار ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 300میں سے 290نشستوں پر الیکشن ہوئے۔ نتائج بھی تسلیم کئے گئے مگر اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے میں بےجا تاخیر کی گئی جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
پچھلے دنوں ایک دوست نے اُن دنوں کی گئی شیخ مجیب الرحمٰن کی ایک جلسہ عام کی تقریر بھیجی جس میں وہ سویلین بالادستی کی بات کررہا تھا۔ اقتدار منتخب نمائندوں کو دینے کی بات کررہا تھا اور فوج کو واپس بیرکوں میں بھیجنے کی بات کررہا تھا۔
یاد رکھیں یہ وہی شخص تھا جس نے ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی الیکشن مہم چلائی تھی۔
آج اِس بات کو پورے پچاس سال ہو گئے ہیں اور ہم ’’سویلین بالادستی‘‘ کی بحث سے ہی باہر نہیں نکل سکے۔ ’’مینار پاکستان‘‘ پر سب جلسے اور جلوس کرتے ہیں مگر پلٹ کر 1940کی قرارداد پاکستان پر کوئی نظر ڈالنے کو تیار نہیں ورنہ شاید ملک کی سمت کا تعین ہو جاتا اور 1971رونما نہ ہوتا۔
سوچتا ہوں کہ دسمبر کو کیسے یاد کروں کہ آج پھر سخت سردی میں سیاسی درجہ حرارت اوپر جاتا ہوا نظر آرہا ہے اور شاید کسی کو بھی نتائج کی پروا نہیں۔ پہلے سیاست کسی نظریے پر ہوتی تھی، پھر مفادات آڑے آگئے اور اب تو صرف ’’اشارہ‘‘ ہی کافی ہوتا ہے۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ 70کی دہائی میں بات پنجاب کی بالادستی کے خلاف ہوتی تھی اور آج ’’سویلین بالادستی‘‘ کی آوازیں خود وہیں سے آرہی ہیں۔
سوچتا ہوں اگر دسمبر 1970کو اقتدار عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمٰن کے حوالے کردیا جاتا اور ذوالفقار علی بھٹو قائد حزبِ اختلاف ہوتے تو شاید آئین کی شکل بھی مختلف ہوتی۔ عین ممکن تھا ہم کنفیڈرل نظام کی طرف چلے جاتے اور پچاس سال پہلے ہی صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل ہو جاتا۔
1970کی غلطی میرے نزدیک سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی اور 25؍مارچ 1971کو فوجیں مشرقی پاکستان بھیجنا شاید متحدہ پاکستان کو تقسیم کرنے کے مترادف تھا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ سوچتا ہوں اس مہینے کو کیسے یاد کروں۔ میں تو غالباً ساتویں کلاس میں تھا جب یہ خبر آئی اور میرے والد کو مولانا آزاد یاد آگئے۔؎
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
زخمی پاکستان پر پھر بھٹو نے ہی مرہم رکھا۔ قوم اور فوج کا حوصلہ بلند کیا۔ میں نے بھی ریڈیو پاکستان سے تقریر سنی۔ اُس وقت بھی ایک ’’نئے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا تھا۔ جب سب کچھ ہو چکا تو اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ آیا کہ ’’مارشل لا غیرآئینی‘‘ ہے۔؎
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
1972میں عبوری آئین بنا اور پھر ہم 1973کے آئین پر متفق بھی ہو گئے کہ بلوچستان میں سرکشی کر ڈالی۔
اب یہ سیاسی فیصلہ تھا یا نہیں؟ ذمہ دار بہرحال حکومت تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حکومتوں کے غیرآئینی طریقے سے خاتمے نے ایک اچھے سیاسی ماحول کو خراب کردیا جس کا سب سے زیادہ نقصان اس ملک میں ترقی پسند اور روشن خیال سیاست کو ہوا اور بھٹو صاحب کمزور سے کمزور تر ہو گئے جس کا احساس انہیں 1977میں ہوا مگر بھٹو کی خوبی یہ تھی کہ اس کی جڑیں عوام اور خاص طور پر عام آدمی میں بہت گہری تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ اگر 1977میں کچھ نشستوں پر دھاندلی نہ ہوتی تو بھی پی پی پی الیکشن جیت جاتی۔ بدقسمتی سے بھٹو صاحب اپنے اندر کے جاگیردار کو مار نہ سکے۔ اس کے بعد بھی اگر قومی اتحاد کے مطالبے کو فوراً تسلیم کرلیا جاتا تو نتائج شاید ان کے حق میں اور بہتر ہوتے۔
پھر 5؍جولائی 1977آگیا۔ 90روز میں الیکشن کا وعدہ پورا ہوجاتا تو بھی ہم سیاسی سمت کا تعین کر لیتے۔
11سال کے مارشل لا نے ملک کو جس بحران میں ڈال دیا، اُس کے نتیجے میں نہ صرف بونے سیاست دان پیدا ہوئے بلکہ ایک روشن خیال معاشرہ تنگ نظری، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی نذر ہو گیا، جس کا سب سے بھیانک چہرہ یا تو ہمیں ’’منی پاکستان‘‘ کراچی میں نظر آیا یا پھر فاٹا اور بلوچستان میں۔
دسمبر 1986میں اگر علی گڑھ اور قصبہ کالونی میں 150سے زائد افراد کو زندہ جلا دیا گیا تو دسمبر 2014میں 170 کے قریب بچوں اور اساتذہ کو پشاور کے APSاسکول میں بے دردی سے قتل کردیا گیا۔
سچ پوچھیں اس وقت مجھے ریاست کم اور غیرریاستی عناصر زیادہ طاقتور نظر آتے ہیں۔ ایک اور بڑی سیاسی غلطی بھٹو کی پھانسی ہے جس کے اثرات زائل کرنے میں شاید برسوں لگ جائیں۔ اس کے بعد سیاست میں ایجنسیوں کا کردار اور بڑھ گیا اور اشاروں کی سیاست شروع ہوگئی۔
ادارے طاقتور اور پارلیمنٹ کمزور ہوگئی۔ محمد خان جونیجو مرحوم جیسے کمزور سیاست دان نے مضبوط اور آزادانہ فیصلے کرنے کی کوشش کی تو گھر بھیج دیا گیا۔ پھر کیا تھا، ایک حکومت بنائی جاتی اور پھر گرائی جاتی۔ آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
سیاست دانوں نے بھی غلطیوں سے نہیں سیکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طاقت کا توازن اسلام آباد سے راولپنڈی منتقل ہوگیا جسے ہم نے ’’سول اور ملٹری تعلقات‘‘ کا نام دیا۔ کتنے فخر سے یہ بات کی جاتی ہے کہ دونوں ایک صفحے پر ہیں حالانکہ جمہوریت میں حکومت کے ماتحت تمام ادارے آتے ہیں۔
اس کو کہتے ہیں دو پاکستان۔سوچتا ہوں، اس دسمبر میں کتنی گرمی آئے گی۔ سرد موسم میں گرمی کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔ بدعنوانی کے الزامات ایک کھیل بن کر رہ گئے ہیں لہٰذا میدان بھی کھلا ہے، ٹیم بھی موجود ہےاور ایمپائر بھی۔
ایک طرف دو نوجوان، دو عمر رسیدہ سیاست دانوں کے ہمراہ ہیں تو دوسری طرف 70سالہ نوجوان کپتان جو بولنگ کرنے کو تیار ہے اور نظریں وکٹ پر ہیں، آخری اوور ہےاور کپتان کو لگتا ہے کہ ایمپائر اب اس کے ساتھ ہے لہٰذا نو بال نہیں دے گا۔
سلیکٹرز بہرحال میچ دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں کہ اب نئی ٹیم لائی جائے، نیا کپتان تلاش کریں یا پھر، اس ٹیم کو اس کپتان کے ساتھ چلنے دیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔