Time 18 دسمبر ، 2020
بلاگ

’آرپار‘ کا پوسٹ مارٹم

فائل:فوٹو

زبان کو اگر عجائب گھر مان لیا جائے تو لفظ اس میں آراستہ عجوبے کہلائیں گے۔کہاں کہاں سے چلے ہوئے ، نہیں معلوم کب دریافت ہوئے،کوئی نہیں جانتا کہ ان کی اصل حقیقت کیاہے؟ بس ہم یہ سب سوچنے کی کھکیڑ میں نہیں پڑتے البتہ ایک بات جانتے ہیں۔ 

لفظ کبھی کبھی قرنطینہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔ وہ کہیں گم ہوجاتے ہیں، نہ سننے میں آتے ہیں نہ پڑھنے میں۔ اچانک کہیں کوئی اپنے زور خطابت میں کوئی بھولا بسرا لفظ ایسے زور و شور سے ادا کرتا ہے کہ لفظ جی اٹھتا ہے اور وہی لفظ جو بے جان ہو کر پڑا تھا، تازہ دم ہو کر بولنے والوں کے لبوں پر آ جاتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ زبان زدِ عام ہوجاتا ہے۔

کچھ یہی قصہ ’آر پار‘ کا ہے۔ کہیں چین سے دم سادھے پڑا تھا کہ سیاسی اکھاڑے میں کسی پہلوان کی طرح داخل ہوگیا ۔ یوں کہ اس پر گفتگو ہو سکتی ہے۔ کچھ بھی ہوہماری زبان کا ٹکڑا ہے۔ اسی زبان کا جس کے بارے میں اسی اکھاڑے کے سورما کہتے ہیں کہ یہ ہماری زبان نہیں ہے۔ خیر وہ الگ بحث ہے، بات ہم اس کی بھی کریں گے۔

ہاں تو’آر پار‘ کہاں سے چلا اور کیوں کر ہمارے معاشرے کا حصہ بنا ؟ کون جانتا ہوگا اور بھلا کیوں جانتا ہوگا کہ یہ قدیم زبان سنسکرت کا لفظ ہے اور اس بولی میں اسے ’اوار پار ‘ کہا جاتا تھا۔ گلی کوچوں کے باشندے کبھی وار پار بھی کہتے تھے۔اور پرانی لغتوں میں لکھا ہے کہ فصحا یعنی اہل زبان بھی وار پار ہی کہا کرتے تھے۔ ہماری طرف کے گاؤں دیہات میں تو قریب کو اُرے اور دور کو پرے کہا جاتا ہے۔ بہر حال لفظ آر پار رائج ہوا اور بھگت کبیر نے بھی لکھا:

لاگی لاگی کہت ہو، لاگی بُری بلائے

لاگی وا دِن جانئے جو آر پار ہوجائے

ایک عشق کی لگن ہی کیا، یہ تاثیر لفظ میں بھی ہوتی ہے کہ وجود میں کہیں بہت اندر سے برآمدہو توکبھی دل کے آر پار ہوتا ہے تو کبھی جگر کے۔ایک اور گہری بات۔ ہر لفظ کی دو شکلیں ہوتی ہیں، ایک تنہا لفظ اور دوسرا لہجے میں ڈوبا ہوا لفظ۔دونوں دیکھنے میں ایک لگتے ہیں مگر سارا مفہوم جدا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر گھر گھر بولی جانے والی زبان کو آپ عام گفتگو میں ’لنگوا فرانکا‘ کہیں تو وہی مطلب ہو گا جو دنیا سمجھتی ہے لیکن پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی کو آپ قومی زبانیں کہیں اور اردوکو گہراگھاؤ لگانے والے لہجے میں یوں کہیں کہ وہ لنگوا فرانکا ہے ،تو محسوس ہوتا ہے جیسے کونے کھدرے میں پڑی ہوئی یوں ہی سی بولی ہے۔ایسے میں یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ کوئی مریض دم آخر اردو میں پانی مانگے تو پنجابی، سندھی، بلوچ اور پشتون نہ صرف سمجھ جائیں گے بلکہ پانی لانے کے لئے دوڑ پڑیں گے۔یہ اس انسانی احساس کی با ت ہے جس میں زبان کو کوئی نام نہیں دیا کرتے۔

آر پار کی بات رہی جارہی ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے جڑواں لفظوں کو توڑ کر ادا کرنا جائز ہے؟دوسری تمام زبانوں کی طرح اردو بھی جڑواں لفظوں سے بھری پڑی ہے : چوری چکاری، لوٹ مار، چھینا جھپٹی، یا بھاگم بھاگ۔یہ سارے لفظ ہمیشہ اکٹھےادا کئے جاتے ہیں، یہ کوئی ضابطہ یا قانون نہیں، لفظوں کی پاس داری کی بات ہے۔ اس طر ح کے بیشتر لفظوں کو توڑ کر دولخت کردیا جائے تو وہ بے معنی ہوجاتے ہیں۔آپ ایک سانس میں ’آر‘ کہیں اور دوسری میں ’پار‘ تو دونوں ٹکڑے بے معنی ہوجاتے ہیں۔

زبا ن کے اپنے آداب ہوتے ہیں جنہیں ملحوظ نہ رکھا جائے تو معاملات نہ آر ہوتے ہیں اور نہ ہی پار۔اس بات میں سوچنے والوں کے لئے بہت سی باتیں چھپی ہیں۔اب اگر کوئی کہے کہ آر پار کوجملے میں استعمال کر کے دکھائیے تو ایک عجب واقعہ ہوا۔ جس روز شہر لاہور میں آر یا پارکاتماشا ہوا اُسی روز شہر کراچی میں ایک وہی بدنام زمانہ اور نام نہاد پولیس مقابلہ ہوا۔ پولیس کی فائرنگ سے ایک نوجوان مارا گیا۔ اس کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو پتا چلا کہ اسے جو گولیاں لگیں وہ اتنے قریب سے چلائی گئی تھیں کہ آر پار ہو گئی تھیں۔ یعنی گولیاں مرنے والے کے بدن میں ایک طرف سے داخل ہوئیں اور دوسری سمت سے نکل گئیں۔لغت میں بھی یہی لکھا ہے کہ وہ سورا خ جو ایک طرف سے دوسری طرف تک جاتا ہو، آر پار کہلا تا ہے۔اس میں ایک جانب سے جھانکا جائے تو دوسری طرف کا نظارہ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ہیں لنگوا فرانکا کی خوبیاں اور اس کے اوصاف۔

آخری بات۔ سیاسی اکھاڑے اور دنگل کے جغادری پہلوان جو جی چاہے کہیں، ہمیں اپنی سر زمین کے چپے چپے پر بولی جانے والی زبانیں عزیز ہیں اور ان سب کا دل سے احترام کرتے ہیں۔ یہ چار پانچ تو بڑی بڑی زبانیں ہیں جن کے علاوہ کتنی ہی اور زبانیں ہیں جن کی ترویج نہیں ہوتی، ہمیں وہ بھی عزیز ہیں۔ صرف ایک بات جی کو ملال دیتی ہے۔ چلئے سندھی قوم کی زبان سندھی، پنجابی قوم کی زبان پنجابی، بلوچی قوم کی زبان بلوچی اور پختون خوا قوم کی زبان پشتو طے پاگئی۔ اب کوئی مجھے بتائے کہ پاکستانی قوم کی زبان کو کیا نام دیا جائے؟

اس کا جواب ذہن میں نہ آئے تو ہم عرض کئے دیتے ہیں: نام میں کیا رکھا ہے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔