17 فروری ، 2021
یہ ’’کرپشن کی ٹرالی‘‘ ہے رکنے کا نام ہی نہیں لیتی، جہاں کسی نے اگر مگر کی تو اس پر رکھے ہوئے ایک بڑے سے بیگ سے رقم نکال کر اس کے حوالے کی اور آگے بڑھ گئی، مسئلہ زیادہ سنگین ہوا تو پورا بیگ ہی حوالے کردیا۔ پھر دوسرا بیگ آگیا۔
اب کاروبار میں ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی نہیں کہ آدمی حرام کھاتے ہوئے ایک بار آسمان کی طرف ہی دیکھ لے، البتہ فرق صرف اتنا آیا ہے کہ پہلے آڈیو لیک ہوتی تھی اب ویڈیو، رہ گئی بات 2018 کی تو ڈھٹائی اتنی ہے کہ اعتراف بھی کرتے ہیں ،پیسہ لینے کا اور دینے یا لوٹانے سے انکار بھی، میں کم سے کم چالیس سال سے اس ٹرالی کو چلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔
ہر چند سال بعد کوئی سدا لگاتا ہوا آتا ہے ’’ووٹ دے دو ووٹ، نوٹ لے لو نوٹ‘‘ اس ٹرالی پر رکھے ہوئے نوٹوں پر کسی جماعت کا نام نہیں لکھا ہوتا، یہ کرنسی سب کے لیے ہوتی ہے۔
بس بدلے میں یہ ضمیر نامی چیز اس کے پاس گروی رکھوانی پڑتی ہے جو ووٹ دینے کے بعد اسے واپس کردی جاتی ہے۔ بے ضمیری میں ضمیر بیچنے کی ضرورت اکثر اوقات پڑتی ہے۔ پہلے پہل شرمندگی سے کم از کم نظریں نیچی کرلیتے تھے۔ اب ڈھٹائی سے آکر کہتے ہیں کہ پیسے لئے تھے کیوں واپس کروں؟ اس حمام میں سب ننگے ہیں کچھ تو ایسےہی رہنا چاہتے ہیں۔
ان گنہگار آنکھوں نے کیا کیا مناظر دیکھے ہیں۔ بڑے بڑے آنسو بہانے والوں کو زمین سے عرش پر آتے دیکھا ہے۔ بات ایوان بالا کی ہوتو معاملہ بالا ہی بالا۔ اب دیکھیں نا اگر ایک صاحب کو قانون کی حکمرانی ، آئین کی بالادستی اور پارلیمینٹ کے وقار کی بات کرنی ہے تو ایوان میں تو جانا پڑے گا۔
اب اگر وہاں جانے کے لئے ’’ٹرالی‘‘ کا استعمال کرنا پڑے تو کیا حرج ہے۔ پچھلے سال سینیٹ میں جو ہوا ا گر دو سینیٹر بھی اخلاقی طور پر استعفیٰ دے دیتے تو شاید کچھ اعتبار رہ جاتا۔وہ ایک شخص جس کا نام اصغر خان تھا یہ کہتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوا کہ ’’مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے‘‘۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے لئے عدالت نہیں گیا تھا بلکہ نظام میں اس ناسور کو داخل ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ ایک خط ہی تو لکھا تھا اس نے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ حضور ’’اُس‘‘ ادارے کا ’’سیاسی سیل‘‘ آج بھی موجود ہے کہ نہیں… بے نظیر بھٹو کے خلاف جس طرح اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا، 1989 میں جس طرح عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب اور ناکام بنانے کے لئے یہ ’’کرپشن کی ٹرالی‘‘ چلائی گئی اور پھر جس طرح 1990 میں پیسہ تقسیم ہوا اس سے وہ بہت پریشان تھے۔ آخری خط انہوں نے اگست 2002 میں اس وقت کے چیف جسٹس کو لکھا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ ’’اس مقدمہ کا فیصلہ جلد کردیں کیونکہ اکتوبر 2002 کو عام انتخابات ہونے ہیں کہیں ایسا نہ ہو ان میں سے کئی لوگ دوبارہ ایوانوں میں پہنچ جائیں جن پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں‘‘۔
پھر ایسا ہی ہوا کیونکہ اس وقت کے حکمراںکو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی ضرورت تھی۔ بڑے بڑے مقدمات کے فیصلے آگئے۔ اس کیس کا فیصلہ اس سے زیادہ نہیں آیا کہ ’’ہاں 1990 کا الیکشن دھاندلی زدہ تھا‘‘۔ کم از کم الیکشن کمیشن 1977 کی طرح اس کو بھی اسکریپ کردے، سزا تو پیسہ دینے اور لینے والوں کو آپ کیا دیں گے۔
ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سندھ اسمبلی میں حکمراں اور حزب اختلاف کو اپنے اپنے MPAsکو کوسٹر میں لانا پڑتا تھا کہ کہیں کوئی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ جام صادق مرحوم ہوں یا مظفر حسین شاہ، علی محمد مہر ہوں یا ارباب رحیم، لیاقت جتوئی ہوں یا کوئی اور کیسے اس منصب پر پہنچے یہ کوئی ایم کیو ایم والوں سے پوچھے کیونکہ ’’مڈل کلاس‘‘ والے کو ٹرالی سے دور رکھنا سب سے مشکل ہوتا ہے۔
حیرت صرف اس بات کی ہے کہ پی پی پی والوں نے سبق سیکھنے کے بجائے وہی روش اختیار کی KPکے دو سینیٹرز کا 2018 میں جیتنا ہو، بلوچستان میں راتوں رات ایک پارٹی کا غائب ہونا ہو یا چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا ناکام ہونا ہو۔ آخر کسی نے ایسے ہی تو نہیں کہا کہ ’’ہم سے پوچھو شاید یہ کام میں پہلے کرچکا ہوں‘‘۔ اس بات پر انہیں سیاسی بادشاہ گر یا گرو کہا جاتا ہے۔
اب اگر اس الیکشن میں بھی کہیں تحریک انصاف، ایم کیو ایم یا جی ڈی اے کو جھٹکا لگتا ہے تو اسے پی پی پی کی کامیابی تو کہا جاسکتا ہے مگر سیاست اور جمہوریت کی ناکامی ہوگی۔ ایسے ہی اگر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو اپنی تعداد سے کم اور PTIاور اتحادیوں کو اس تناسب سے زیادہ سیٹیں ملتی ہیں تو بھی ایسا ہی ہوگا۔ دوسری جگہ بھی معاملہ مختلف نہیں۔ 2018 میں سینیٹ کے الیکشن کے وقت جب سندھ کے وزیروں کی گاڑی میں متحدہ کی خواتین رکن اسمبلی کو آتے دیکھا تو مجھے لگا کہ جمہوریت اور سیاست اس ’’کرپشن ٹرالی‘‘ کی نذر ہوگئیں۔
میں یہ کالم لکھتے ہوئے صرف یہ سوچ رہا تھا کہ کیا کبھی یہ ’’ٹرالی‘‘ رکے گی۔ ایک بار بریگیڈئیر (ر) امتیاز نے انٹرویو میں بتایا کہ وہ پچاس لاکھ روپے لے کر بانی متحدہ کے پاس گئے تھے مگر انہوں نے انکار کردیا۔ مگر سوال تو یہ تھا کہ وہ یہ رقم لے کر گئے کیوں تھے اور یہ پیسہ آیا کہاں سے۔
اب ان کی یہ بات کسی حد تک درست ہے کیونکہ جنرل (ر) حمید گل مرحوم نے مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے ان کو صرف 1988 میں پیغام دے کر بھیجا تھا کہ بوری بند لاشیں اور بھتہ بند کیا جائے۔کرپشن کی اس ٹرالی نے جو کبھی نہیں رکی جمہوریت کی بساط لپیٹ دی ہے۔ چاہےاب اسے آپ تیزاب میں ڈالیں یہ ٹرالی نہیں رکے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔