Time 05 مارچ ، 2021
بلاگ

عمران خان کی سیاسی نو بالیں

فائل فوٹو

وزیراعظم عمران خاں نے کرکٹ میں اپنے سنہری 20 سالوں میں شاید ہی کبھی نوبال کی ہو، کرکٹ کی دنیا میں انہیں اپنے وقت کا ایک انتہائی فٹ اور شاندار کھلاڑی سمجھا جاتا ہے۔

لیکن ان کا سیاسی کیریئر بالخصوص اقتدار میں پچھلے ڈھائی سال نو بالز سے بھرے ہوئے ہیں، بدقسمتی سے سیاست میں انہیں 2Ws یعنی وسیم اکرم اور وقار یونس کی خدمات حاصل نہیں، انہیں وسیم اکرم پلس(عثمان بزدار) اور وقار یونس پلس(محمود خان ) کے ساتھ گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔

کرکٹ میں عمران خان نے بہت کم کوئی بلنڈر کیا لیکن سیاسی کیریئر بلنڈرز سے بھرا ہوا ہے، ان کے باوجود انہوں نے اپنی مہارت اور فائٹنگ سپرٹ سے کامیابیاں حاصل کیں، ان کے سیاسی بلنڈرز اور ٹیم کے ناقص انتخاب کی ایک لمبی فہرست ہے، کھلاڑیوں میں کورونا کی وجہ سے پی ایس ایل کرکٹ ملتوی ہوجاتی ہے تو پھر سب کی توجہ دوبارہ پولیٹیکل سپر لیگ پر ہوگی جس میں بدھ کو ہونے والے بڑے آپ سیٹ نے وزیراعظم عمران خان کو بھی آپ سیٹ کردیا ہے۔

عمران کی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو آؤٹ کرنے کی کوشش ناقص فیلڈنگ اور غلط کھلاڑی عبدالحفیظ شیخ کے انتخاب سے ناکام ہوگئی۔

انہوں نے کئی کیچ ڈراپ کئے اور سات نو بالز(مسترد ووٹ) نے میچ ہرادیا، اب ان کے کھلاڑیوں نے سیاسی بکیوں سے میچ فکس کرلیا تھا یا نہیں، یہ بات تحقیق طلب ہے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ کوئی اس میں ملوث بھی ہے تو کپتان اس کے خلاف ایکشن نہیں لیں گے کیونکہ انہوں نے ابھی اعتماد کا ووٹ لینا ہے۔

سیاست ایک الگ طرح کا کھیل ہے جس میں اتنی نوبال یا غلط شاٹس کی گنجائش نہیں ہوتی جتنی انہوں نے ڈھائی سال میں لگا لی ہیں، اپنی بولنگ اور بیٹنگ بہتر کرنے کے لیے ابھی ان کے پاس دوسال ہیں، اس کے ساتھ ہی اب تک ہونے والی سیاسی غلطیوں کو ماننا بھی ہوگا، میں عمران کو کرکٹ کے زمانے سے جانتا ہوں اور پتہ ہے کہ وہ زبردست فائٹر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس نے نتیجے کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کرنے کے بجائے خود اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے، اس فیصلے میں تھوڑا سا خطرہ ضرور ہے لیکن اس سے حکمران جماعت تحریک انصاف کی مایوسی ضرور دور ہوگی، خطرہ یہ ہے کہ اگر اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکامی ہوئی تو استعفیٰ دینا پڑے گا اور نئے انتخابات ہوں گے۔

یہ ایک جرات مندانہ فیصلہ ہے، اگر وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیتے ہیں تو ان کی پوزیشن مضبوط ہوجائے گی اور وہ اپوزیشن سے جارحانہ انداز میں نمٹ سکتے ہیں، نتیجہ کچھ بھی ہو ایک بات ضروری ہے کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم عبدالحفیظ شیخ کی شکست کو محض مخالفین کی ہارس ٹریڈنگ کا نتیجہ قرار دینے کے بجائے اپنے معاملات کے بارے میں سوچ بچار کریں، خان کے اپنے سیاسی بلنڈرز کے علاوہ دوسری خرابیاں بھی ہیں مثلاً درجنوں مشیر مصروف تو بہت نظر آتے ہیں لیکن سیاسی محاذ پر کرتے کچھ نہیں ہیں۔

وزیراعظم کو پتہ تھا کہ خرابی کہاں ہے، اگر وہ خود انتخابی مہم میں شریک نہ ہوتے تو فرق اس سے زیادہ ہوسکتا تھا، ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کے درمیان ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ دراصل غلطی کیا ہوئی ہے۔

عمران خان کی پارٹی 2018 کے الیکشن میں سب سے بڑی اکثریتی پارٹی کے طور پر تو سامنے آئی لیکن واضح اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے اسے ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی بی این پی (مینگل)، مسلم لیگ ق اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ جیسے اتحادیوں پر انحصار کرنا پڑا. وزیر اعظم کو سوچنا ہوگا کہ وہ ڈھائی سال تک جن ارکان اسمبلی سے ملے ہی نہیں ، انہوں نے کیسے ان کے سامنے عبدالحفیظ شیخ سمیت ان کے ساتھیوں کی سرد مہری کے الزامات کے ڈھیر لگائیے۔

عمران خان کو معلوم ہے کہ غیر منتخب مشیروں کو ان کے ایم این اے، ایم پی اے اور بالخصوص ان کے قریبی وزیر فواد چودھری، اسد عمر، شیریں مزاری اور شیخ رشید کتنا ناپسند کرتے ہیں. انہوں نے حفیظ شیخ کو ووٹ تو یقیناً دئیے ہوں گے لیکن وہ انہیں پسند کتنا کرتے ہیں، یہ عمران خان بھی جانتے ہیں، تو کیا شیخ سینیٹ کیلئے صحیح انتخاب تھے؟ جواب ہے، نہیں. تحریک انصاف ہی کی فوزیہ ارشد نے 174 ووٹ لئے تو حفیظ شیخ کو164 ملے. سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جنہوں نے شیخ کو ہرایا پی ڈی ایم کی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار اور آصف زرداری کا ترپ کا پتہ تھے۔

زرداری چھ ماہ سے اس فارمولے پر کام کر رہے تھے، وزیراعظم نے کسی پارٹی کے کسی پرانے رہنما کو ٹکٹ دیا ہوتا تو نتیجہ مختلف ہوتا. پی ڈی ایم اور زرداری نے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی میں بے چینی سے فائدہ اٹھایا، کسی فاؤل پلے کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا، مثال کے طور پر کراچی کے ارکان سمیت پی ٹی آئی سندھ کے ایم پی ایز اور ایم این ایز نےایک الگ گروپ بنا لیا تھا اور سرعام پارٹی سے اختلاف کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے لیکن حکومت نے ان کا سنجیدگی سے کو3 نوٹس نہیں لیا۔

صرف دوبار وزیراعظم نے ان سے ملاقات کی اور وعدہ کیا کہ ان کی شکایات دور کی جائیں گی لیکن کوئی پیش رفت نہ ہوئی، کیا وزیراعظم جانتے ہیں کہ نیوٹرل امپائرز کی مدد اور حمایت کے باوجود وہ مضبوط اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ ن کو توڑنے میں ناکام رہے؟ پنجاب میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات بھی جگانے کے لیے کافی تھے. ان کے اپنے چنے ہوئے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پہلے ہی انہیں اور پارٹی کو کافی نقصان پہنچا چکے ہیں. سندھ، پنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کے گڑھ پرویز خٹک کے حلقے میں پے درپے شکستوں سے واضح ہے کہ ان تین صوبوں میں تحریک انصاف میں سب ٹھیک نہیں ہے. بلوچستان کی سیاسی حرکیات ویسے ہی الگ ہوتی ہیں۔

عمران خان کو خود کو خوش قسمت سمجھنا چاہیے کہ ان کے نمبر 2 جہانگیر ترین کے دور ہونے سے پارٹی میں جو دراڑ پڑی تھی اس کے باوجود بعض حلقوں کی مہربانی سے مارجن زیادہ نہیں ہوا جہانگیر ترین نے شیخ کی انتخابی مہم شروع کی لیکن خان کی سرد مہری کے باعث پیچھے جا بیٹھے، اب وقت ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنی پالیسی، طرز سیاست بالخصوص اتحادیوں سے سلوک پر غور کریں۔

بی این پی مینگل انہیں چھوڑ کر اپوزیشن سے جاملی تو انہوں نے کوئی توجہ نہ دی. مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کے ان کا ساتھ دینے کی ذاتی وجوہ ہیں اور انہوں نے کوئی ایک سال بعد ق لیگ کے گجرات کے چودھریوں سے ملاقات کی. وزیراعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کربھی لیتے ہیں تو انہیں پارٹی کے ایم این ایز، ایم پی ایز اور اتحادیوں پر زیادہ توجہ دینا ہوگی. انہیں پنجاب اور پی کے میں جلد تبدیلیاں لانی ہوں گی کیونکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اب بلدیاتی انتخابات بھی ہونے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔