بلاگ
Time 09 اپریل ، 2021

عمران دور کی اپوزیشن

فائل فوٹو

مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے دھڑے کی جانب سے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹس اس 11جماعتی اپوزیشن اتحاد کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ اس اقدام نے یقیناً وزیراعظم عمران خان کو تقویت پہنچائی ہے۔

اب مستقبل قریب میں ان کے خلاف کسی منظم تحریک کا مشکل ہی سے کوئی امکان ہے۔ پی ڈی ایم میں تقسیم کا عمل عرصے سے نمایاں تھا۔ دونوں بی اپوزیشن جماعتیں موردالزام ٹھہرائی جا سکتی ہیں۔ لیکن بلاشبہ اس کا سب سے زیادہ خمیازہ پی ڈی ایم کے سربراہ فضل الرحمٰن کو بھگتنا پڑا مسلم لیگ (ن) کے چند رہنما حیران تھے کہ فیصلہ عجلت میں کیا گیا بلکہ مولانا کو چاہئے تھا کہ وہ پی ڈی ایم کا سربراہ اجلاس بلائے۔

اس کے اثرات 10 اپریل کو ڈسکہ اور29 اپریل کو کراچی میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات پر مرتب ہوں گے۔ اے این پی اب پی ڈی ایم کو خیرباد کہہ چکی ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی جانب سے دیئے گئے شوکاز نوٹس کا اپنے وضاحتی خط میں جواب دے گی۔

اس ماحول میں عمران خان کو خوش قسمت تصور کرنا چاہئے کہ منتخب ایوانوں میں مؤثر نمائندگی رکھنے کے باوجود پی ڈی ایم آئندہ ڈھائی سال تک حکومت کے لئے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ سینیٹ انتخابات کے بعد سے دونوں جماعتوں کی حکمت عملی عدم بلوغیت پر مبنی ہے۔ 26 مارچ کو مجوزہ لانگ مارچ بھی اس کی نذر ہو گیا۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان قربتوں اور فاصلوں کی ایک تاریخ ہے۔ جس کے نتیجے میں عمران خان کی تحریک انصاف کو 2018ء کے عام انتخابات میں تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر ابھرنے کا موقع ملا۔ گوکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اب بھی پنجاب اور سندھ میں مضبوط سیاسی جڑیں ہیں۔

پیپلز پارٹی کو سندھ میں زیادہ نشستیں ملیں جبکہ نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے باوجود پنجاب میں ن لیگ کا ووٹ بینک برقرار ہے۔ پنجاب اسمبلی میں ن لیگ واحد بڑی جماعت ہے اور تحریک انصاف کو وہاں ق لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پڑا۔

بلوچستان میں عام انتخابات سے قبل جس طرح اچانک مسلم لیگ (ن) کی جگہ بلوچستان عوامی پارٹی نے لی۔ اس میں آصف زرداری کے مبینہ کردار کے حوالے سے سنجیدہ سوالات ابھرتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔