بلاگ
Time 28 اپریل ، 2021

کراچی کیا سوچ رہا ہے؟

فوٹوفائل

این اے 249کراچی میں کل ہونے والا ضمنی الیکشن ،کیا اس شہر کی سیاست میں نئی تبدیلیوں کا اشارہ دے گا ۔اس کےلیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس کے نتائج کسی کے لیے حیران کن بھی ہو سکتے ہیں اور پریشان کن بھی۔

 عام انتخابات میں یہی حلقہ تھا جہاں سب سے زیادہ کانٹے کا مقابلہ ہوا تھا اور تحریک انصاف کے اپنا مخصوص انداز رکھنے والے نوجوان فیصل واوڈا مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے محض 650 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے تھے۔

2018 میں صرف یہی نتیجہ حیران کن نہیں تھا بلکہ شہر کی سیاست ایک جماعت سے دوسری جماعت کو منتقل ہو گئی تھی۔ لہٰذا پی ٹی آئی کے لیےجس نے یہاں سے قومی اسمبلی کی 20 میں سے 14 قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کی تھیں یہ الیکشن اس کی سیاسی ساکھ کے لئے بہت اہم ہے۔

اس لئے بھی کہ پچھلے الیکشن کے نتائج پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے تھے۔ اب اگر وہ یہ نشست برقرار رکھتی ہے تو جواب خود بخود مل جائے گا۔ ہار کی صورت میں الزامات کی تصدیق ہو جائے گی۔ یہی نہیں پارٹی میں اس فیصلے پر بھی سوالات اٹھیں گے کہ آخر فیصل واوڈا نے اپنی نااہلی بچانے کیلئے اس سیٹ سے استعفیٰ کیوں دیا؟

دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کا اس شہر میں اپنا ایک ووٹ بینک رہا ہے، خاص طور پر اس حلقے میں۔ ماضی میں بھی وہ یہاں سے دو بار قومی اسمبلی کا الیکشن جیت چکی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پہلی بار شریف خاندان کے کسی فرد کو یہاں سے الیکشن لڑوانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ اس بار ان کے امیدوار مفتاح اسماعیل کو سخت مقابلے کا سامنا ہے۔

 کورونا کی وجہ سے مریم نواز کا دورہ ملتوی ہونا قابلِ تحسین ضرور ہے مگر اس کا کسی حد تک نقصان امیدوار کو پہنچ سکتا ہے اس کے لئے انتظار۔ اگر پارٹی یہ نشست جیت جاتی ہے تو یہ اپوزیشن بیانیہ کے لیےمددگار ثابت ہو گی۔ شکست کی صورت میں وہی سوالات اٹھیں گے اور پی ٹی آئی کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ تو رہی سیاست ان دو جماعتوں کی جو پچھلی بار پہلے اور دوسرے نمبر پر تھیں۔ مگر دو ایسی جماعتیں بھی جو پچھلے چند سالوں میں کراچی کی سیاست کے حوالے سے کچھ نئے رجحانات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ ایک کالعدم تحریک لبیک پاکستان اور دوسری پاک سر زمین پارٹی۔ لبیک نے پچھلے انتخابات میں حیران کن طور پر تیسری پوزیشن لی تھی۔

صرف اس حلقے میں ہی نہیں‘ کراچی کے کئی حلقوں میں ان کی دوسری یا تیسری پوزیشن رہی۔ گو کہ ان کے صرف 3صوبائی اسمبلی کے امیدوار کامیاب ہوئے جن میں ایک یہ حلقہ بھی شامل تھا مگر ان کے ووٹ لینے کی پوزیشن شاید ایک نئی سیاسی جماعت کے طور پر خاصی بہتر رہی جس کا اصل امتحان بلدیاتی الیکشن میں ہو سکتا ہے۔

دوسری طرف پی ایس پی 2014 سے، مہاجر، سیاست‘ کو ایک نیا رنگ دینے میں مصروف ہے۔ اس کے سربراہ مصطفیٰ کمال جو اس شہر کے سٹی ناظم بھی رہے ہیں اور امیدوار بھی ہیں۔

شہر میں بسنے والی دوسری قوموں کو ملا کر سیاسی بیانیہ بدلنا چاہتے ہیں۔ اب تک انہیں یا ان کی جماعت کو انتخابی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ انہوں نے خود یہاں سے لڑ کر اپنے لئے اور جماعت کے مستقبل کے لیے ایک بڑا رسک لیا ہے۔ ا گر وہ کامیاب ہوتے ہیں تو پی ایس پی کے لیے آنے والے بلدیاتی الیکشن میں امید کی کرن روشن ہو سکتی ہے مگر شکست کی صورت میں پارٹی کے اندر نئے سوالات جنم لے سکتے ہیں۔

یہ الیکشن متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے لئے بھی خاصا اہم ہے گو کہ یہ ان کا روایتی حلقہ نہیں رہا مگر 2018 کے بعد ایم کیو ایم شہری سیاست میں بھرپور واپسی کیلئے کوشاں ہے۔ 1978 سے 2013 تک جو متحدہ تھی وہ اب خاصی منتشر نظر آتی ہے۔

 لہٰذا انہوں نے اپنے اتحادیوں پی ٹی آئی سے اتحاد کے بجائے انفرادی طور پر الیکشن لڑنے کا سیاسی فیصلہ کیا تاکہ یہ جان سکیں کہ پارٹی کہاں کھڑی ہے۔ یہ الیکشن ان کے لیے آئندہ ہونے والے بلدیاتی اور 2023 کے عام انتخابات سے پہلے ایک ٹرائل میچ سے کم نہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے بھی یہ حلقہ 249 اہم ہے۔ گو کہ اس حلقے کی شکل بدل گئی ہے ورنہ ماضی میں جب یہ حلقہ 184ہوا کرتا تھا تو 1988میں ان کے امیدوار امیر حیدر کاظمی مرحوم یہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ پی پی پی پچھلی بار پانچویں پوزیشن پر تھی مگر اسے امید ہے کہ ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اس کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔

اس حلقے کو ’منی پاکستان‘ کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہاں ہر کمیونٹی کا اپنا ووٹ بینک ہے۔ البتہ سب سے اہم بات کل کے ہونے والے انتخاب میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ ہو گا جو 2018 میں 42 فیصد تھا۔ اس لحاظ سے اگر ٹرن آؤٹ 30 فیصد بھی رہا تو مقابلہ دلچسپ ہو گا۔؎

 الیکشن کمیشن سمیت پچھلے چند ماہ میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں اور ضمنی انتخابات سے ایک بات تو واضح ہے کہ ہم میں سے کسی کو ’کورونا‘ کی خوفناک صورتحال کا ادراک نہیں ہے۔ لوگ اس بلائے بے درمیاں کی بھینٹ چڑھتے ہیں تو چڑھ جائیں، میں الیکشن جیت جاؤں۔

کراچی کی سیاست میں رجحانات بدلتے رہتے ہیں۔ مگر کراچی کے ساتھ حکمرانوں اور ریاستی سلوک جوں کا توں ہے۔ اس بار بھی 2017 کی متنازع مردم شماری کو تسلیم کر کے زیادتی کے سلسلے کو جاری رکھا گیا البتہ یہ لولی پاپ ضرور دینے کی کوشش کی گئی کہ 2023 کے الیکشن سے پہلے نئی مردم شماری اور حلقہ بندیاں ہو جائیں گی۔ اگر اس وقت تین سے ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کو نصف دکھایا جا رہا ہے تو آپ 2 سال بعد اس میں کتنا اضافہ کر دیں گے۔

جماعت اسلامی نے پچھلے ایک دو سال سے، حق دو کراچی کے حوالے سے اہم مہم ضرور چلائی ہے اور چونکہ ماضی میں ان کو اس شہر نے ووٹ بھی دیا تھا مگر جماعت جب تک اپنے پورے طرز سیاست پر نظر ثانی نہیں کرے گی وہ انتخابی ریس میں پیچھے ہی رہے گی۔ خاص طور پر جب وہ بغیر اتحاد کے الیکشن لڑے گی، اس حلقے کے ضمنی الیکشن میں وہ نہیں ہے۔

کراچی کو سوچنا ہو گا‘ رنگ و نسل اور نظریات سے بالاتر ہو کر کہ پاکستان کا معاشی حب لوٹ مار کا گڑھ کیوں بنا ہوا ہے۔ اس کو مکمل، کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن، بنائے بغیر مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ کوئی تو شہر کے ساتھ وفا کرے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔