11 ستمبر ، 2021
اسلام آباد میں قتل ہونے والی سابق سفارتکار کی بیٹی نور مقدم کیس میں پولیس کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے چالان کی تفصیلات جیو نیوز نے حاصل کر لی ہیں۔
پولیس کی جانب سے نامکمل عبوری چالان عدالت میں پیش کیا گیا، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے لیپ ٹاپ، موبائل فون پر رپورٹ آنے پر ضمنی چالان داخل کروایا جائے گا۔
پولیس کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے چالان میں بتایا گیا ہے کہ ملزم ظاہر جعفر نے نور مقدم کو قتل کرنے کا اعترافی بیان دیا جبکہ ڈی این اے رپورٹ سے مقتولہ نور مقدم کا ریپ بھی ثابت ہوا، ملزم نے نور مقدم کو قتل کر کے سر دھڑ سے الگ کرنےکا بیان بھی دیا۔
پولیس چالان کے مطابق ملزم ظاہر جعفر نے بتایا کہ نور مقدم نے شادی سے انکار کیا تو اسے زبردستی کمرے میں بند کر دیا، چوکیدار کو کہا گھر کے اندر کسی کو آنے دے نہ نور مقدم کو جانے دے، ملزم نے نور مقدم کا موبائل فون دوسرے کمرے میں چھپا دیا جو ملزم کی نشاندہی پر اسی کے گھر کی الماری سے برآمد ہوا۔
عدالت میں جمع کروائے گئے عبوری چالان کے مطابق ملزم نے والد کو نور مقدم کے قتل کی اطلاع دی تو انہوں نےکہا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، والد نے کہا ہمارے بندے آ رہے ہیں جو لاش ٹھکانے لگاکر اسے وہاں سے نکال لیں گے۔
عبوری چالان میں بتایا گیا ہے کہ اگر ذاکر جعفر بروقت پولیس کو اطلاع دیتا تو نور مقدم کا قتل بچ سکتا تھا، ملزم ظاہر جعفر کے والد نے اس وقوعہ میں اپنے بیٹےکی مدد کی ہے۔
ملزم کے بیان کے مطابق تھراپی ورکس کے امجد محمود سے جھگڑا غلط فہمی پر ہوا، تھراپی ورکس کے ملازمین نے ملزم کا فعل چھپانے اور شہادت ضائع کرنےکی کوشش کی، تھراپی ورکس کے زخمی ملازم امجد نے وقوعہ کا اندراج بھی نہیں کروایا، تھراپی ورکس کے زخمی ملازم امجد نے میڈیکل سلپ میں روڈ ایکسیڈنٹ درج کروایا۔
عبوری چالان میں کہا گیا ہے کہ ڈی وی آر میں محفوظ شدہ تصاویر اور فنگر پرنٹس بھی ملزم کے ہی ہیں، 12 اگست کی ڈی این اے رپورٹ کے مطابق ملزم کا مقتولہ کے ساتھ ریپ ثابت ہے، نور مقدم واش روم سے چھلانگ لگا کر گیٹ پر آئی تو چوکیدار نے اسےسہولت نہیں دی، مالی جان محمد نے بھی نور مقدم کو گیٹ نہیں کھولنے دیا، مالی جان محمد نور مقدم کو گیٹ کھولنے دیتا تو وہ باہر جا سکتی تھی۔
عبوری چالان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملزم نے 19 جولائی کو امریکا کی فلائٹ بک کروا رکھی تھی لیکن سفر نہیں کیا، رپورٹس میں آیا ہے کہ مقتولہ کے جسم میں زہر یا نشے کے اثرات نہیں پائے گئے، ملزمان کے ڈی این اے، مقتولہ اور ملزم کا موبائل فون اور لیپ ٹاپ کے رزلٹ آنا باقی ہیں۔
چالان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کیس میں 12 ملزمان کے خلاف شہادت و ثبوت ہیں، ان کی حد تک چالان جمع کروایا گیا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں 9 ستمبر کو چالان پیش کیا گیا، اس سے قبل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کامران بشارت مفتی کی عدالت میں میں چالان جمع کرایا گیا تھا تاہم عدالت نے کیس ٹرائل کر لیے 9 ستمبر کو ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کو منتقل کر دیا تھا۔