مرقد گمنام ہے

سو تم یہ سوچتے ہو کہ —فوٹو: فائل
سو تم یہ سوچتے ہو کہ —فوٹو: فائل

پاکستانی سول سرونٹ اور شاعر فواد حسن فواد نے عظیم کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی (مرحوم) کو ایک نظم کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا ہے جسے ان کی اجازت سے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔

سو تم یہ سوچتے ہو کہ

اگر تم میرے اس فانی بدن کو

میرے لوگوں، میرے بچوں کی

نگاہوں سے پرے جا کر

کہیں پر دفن کر دو گے

تو وادی میں سلگتی آگ

اور آنکھوں میں لودیتے چراغوں کو

بجھانے میں تمہیں آسانیاں ہوں گی


سو تم یہ سوچتے ہو کہ

 شجاعت، حریت اور جراتوں کی داستانیں 

جواں جذبے، جواں سوچیں

 ہر اک دل میں بھی اک جستجو آزاد ہونے کی

 مری مرہونِ منت ہے

 مری آنکھوں کے بند ہونے سے یہ سب

 خوابِ ماضی کی طرح متروک ٹھہرے گا 

تمہارے پنجہ خونیں میں جکڑی یہ حسیں وادی

 یہ جھیلیں، بستیاں،کوہسار ، جھرنے 

سبھی محصور ٹھہریں گے


تمہارا سوچنا اپنی جگہ ہے

 کہ ظالم اور جابر حکمران

 ایسا ہمیشہ سوچتے ہیں

 مگر تاریخ انسانی کی بوسیدہ کتابوں

 تمہارے جیسے لاکھوں حکمرانوں کے


مقابر پر سجی وہ تختیاں کچھ اور کہتی ہیں

 دلوں پر حکمرانی جبر و عظمت سے نہیں ہوتی

 دلوں میں جب کبھی اک جوت آزادی کی

 بُکل مار لیتی ہے

 تو فوجیں اور سنگینیں کسی بھی طور

 پھر ان کو مسخر کر نہیں سکتیں

 بہاریں اک نہ اک دن آ کے رہتی ہیں 

کہ فصلِ گُل کی خوشبو

 اونچی باڑوں سے نہیں رکتی

 ہوائیں سب قبیلوں، بند دروازوں کا

 زندانوں کا جادو توڑ دیتی ہیں

 دہائیوں اور صدیوں پر محیط عہد غلامی بھی

 بہت پیچھے کہیں پہ چھوڑ دیتی ہیں


تمہیں حق ہے کہ تم جو چاہو سوچو

 مگر یہ یاد رکھنا

 مرا گمنام مرقد ہی

 نئی تحریک آزادی کو لو دے گا 

یہی تحریک ہوگی جو تمہیں مجبور کر دے گی

یہ جھیلیں، یہ شجر، کوہسار، جھرنے ، وادیاں ساری

 تمہارے جبر و ظلمت کی حدوں سے

 دور کر دے گی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔