17 نومبر ، 2021
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ آپ کے پاس کیس ثابت کرنے کے لیےکیا ثبوت ہے؟
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اخترکیانی پر مشتمل بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا کےخلاف اپیلوں، نئے حقائق کی روشنی میں سزا ختم کرنے کی متفرق درخواست اور نیب کی جانب سے ضمانت منسوخ کرنےکی درخواستوں کو یکجا کرکے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس کیا دستاویز ہےکہ مریم نواز ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی بینفشل اونر ہیں؟ آپ کے پاس کیس ثابت کرنےکے لیےکیا ثبوت ہے؟
عدالت کا کہنا تھا کہ 2012 کا لیٹر ہے اور ٹرائل 2018 میں ہوا،ٹرائل کے دوران پرانے لیٹر پر انحصار کیسے کرلیں گے ؟ ہوسکتا ہے کہ اس دوران اونر شپ تبدیل ہوگئی ہو۔
نیب پراسیکیوٹر نےکہا کہ فلیٹس خریدنے کا سورس پوچھا گیا جو نہیں بتایا گیا،عدالت نے کہا پہلے آپ انہیں مالک ثابت کریں گے تو وہ ذرائع بتائیں گے ، آپ کوملکیت کا وہ ثبوت دکھانا ہے جو ٹرائل کورٹ میں پیش کیا،کسی کو ٹرائل میں عوامی تاثرپرقصور وارکہہ کر سزا نہیں دے سکتے۔
عدالت نے پوچھا کہ 1980 میں مریم نواز کی عمر کیا تھی؟ وکلا نے بتایا کہ اس وقت مریم نواز کی عمر7 سال تھی۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ 1993 کا معاملہ ہے،1980 کا نہیں، عدالت نے کہا ہمیں سب کچھ قانون اور شہادت کے مطابق دیکھنا ہے۔
نیب پراسیکیوٹرعثمان چیمہ نے دلائل میں کہا کہ ہم نے عدالت کی معاونت کے لیےکچھ نوٹس بنا دیے ہیں، ان نوٹس سے عدالت کو ریکارڈکا جائزہ لینے میں آسانی ہوگی،اس کی ایک کاپی عرفان قادرکو بھی دے دیں تاکہ انہیں بھی دیکھنے میں آسانی ہو۔
کیس کی مزید سماعت 24 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔