ملک میں ماہی گیری کے شعبےکی ترقی کیلئے جدید طریقے اپنانا ہوں گے، ماہرین

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندری ماحول کا تحفظ اور ماہی گیروں کی جدید خطوط پر تربیت کے ساتھ ماہی گیری کا شعبہ قومی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز کے تحت ورلڈ فشریز ڈے کے موقع پر "پائیدار ماہی گیری اور ماہی گیربرادری اور قومی ترقی پر اس کے اثرات" کے موضوع پر ویبنار منعقد کیا گیا۔

ماہرین میں اوشین یونیورسٹی چین کے ڈاکٹر چن لی ، معظم علی خان ، ڈاکٹر وسیم خان، مسلم محمدی ، ڈی جی نیما وائس ایڈمرل ریٹائرڈعبد العلیم ، ڈی جی میری ٹائم سکیورٹی ریئرایڈمرل شعیب خٹک اورکموڈور علی عباس نے شرکت کی۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ سمندروں میں مچھلی سمیت دیگر قیمتی آبی حیات کا تحفظ ضروری ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کے پانیوں میں مچھلی کی کئی اقسام میں کمی دیکھی جارہی ہے جس کے لیے پابندی کے مہینوں میں ماہی گیری کی سرگرمیوں پر پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فشنگ ٹرالرز کو سی فوڈکا معیار برقرار رکھنے کے لیے پندرہ روز میں واپس ساحل پر آنا چاہیے۔ماہرین نے کہا کہ ہرسال سات سو فشنگ بوٹس کا اضافہ بھی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔

 ماہرین نے مچھلی اور دیگر سمندری غذائی اشیاء کو محفوظ کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کے حصول پر زور دیا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مچھلی کو باقاعدہ خوراک کے طور پر نہیں دیکھا جاتا لیکن دنیا کے کئی خطوں میں یہ بڑی غذائی اشیاء میں شامل ہے۔

ماہرین نے کہاکہ ماہی گیروں کی تربیت ، جدید طریقہ ماہی گیری، سمندری خوراک کو محفوظ کرنے کے طریقوں کو اختیار کرنا ، ہینڈلنگ اور فشنگ بوٹس میں جدید آلات کی تنصیب ضروری ہے۔

ماہرین نے زور دیا کہ فشنگ پالیسی میں سمندری ماحول، سمندری حیات اور ماہی گیروں کے معاشی تحفظ کو فوکس کرنا ضروری ہے جس کے لیے جدید طریقے اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے۔

مزید خبریں :