عوام اور تبدیلی کا مزہ

پی ٹی آئی کے بانیان میں سلجھے ہوئے سیاستدان، سینئر وکلا، ریٹائرڈ جج، جنرلز، بیوروکریٹس، ادیب، دانشور، معیشت دان، پروفیسرز، ڈاکٹرز و دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے منجھے ہوئے افراد شامل ہوئے۔ 

اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی کثیر تعداد جو روایتی سیاستدانوں جیسا کہ نواز شریف، زرداری اور آمروں سے تنگ تھی وہ بھی جوق در جوق پی ٹی آئی کا حصہ بنتی گئی۔ میری نظر میں جیسے 23مارچ 1940کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی اسی طرح 30اکتوبر 2011کو ’’نیا پاکستان‘‘ کی قرارداد منظور ہوئی تھی۔ جب پی ٹی آئی کے چیئرمین جناب عمران خان نے مینار پاکستان پر پی ٹی آئی کے عظیم و شان جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کا لیڈر آپ سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ 

کیونکہ اس جلسہ کے بعد وہ پی ٹی آئی کہ جس کے چیئرمین کو عام انتخابات میں خود اپنی نشست جیتنا بہت مشکل ہوتا تھا اور شیخ رشید جیسے منجھے ہوئے سیاستدان خود عمران خان کے منہ پر انہیں تانگہ پارٹی کہا کرتے تھے، پھر اسی پارٹی نے کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑے کہ بالآخر اگست 2018میں پی ٹی آئی تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے مسند اقتدار پر براجمان ہو گئی۔

 پاکستانی عوام کو 25جولائی 2018کا دن یاد ہوگا جب تبدیلی کے نعرے لگ رہے تھے اور سال 2019کے پہلے روز ہی حکومت نے مہنگائی کے بم گرانے شروع کیے پھر بجٹ آیا اس میں مزید اضافہ ہوا 2020شروع ہوا تو پھر مہنگائی کا تحفہ ملا پھر بجٹ 2021آیا کچھ نہ بدلا پھر وہی مہنگائی قوم توقع کررہی تھی کہ حکومت اپنی مدت سے آدھا وقت گزار چکی ہے تو اب منی بجٹ میں شاید کوئی ریلیف مل جائے تو ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی یہ سوچتا یا سمجھتا ہے نام نہاد صادق امین ان کیلیے کچھ کر پائیں گے تویہ ان کی بھول ہے۔ ہم نے تو کئی تحریروں کے ذریعے عوام کو آگاہی دی کیونکہ ہم تبدیلی کے انداز دیکھ رہے تھے لیکن کچھ نادان پھر بھی یہ سوچ اور سمجھ رہے تھے کہ آج نہیں تو کل کپتان ان کے لیے من و سلویٰ منگوائیں گے۔ کپتان آسمان سے من و سلویٰ تو نہیں لائے البتہ مہنگائی، غربت، بیروزگاری، لاقانونیت اور بھاری بھرکم بجلی و گیس بلوں کی صورت میں وہ جو سوغات لے کر آئے ہیں وہ بھی آسمانی بجلی سے کم نہیں۔

 اب تو عوام کے ساتھ خواص کوبھی دن میں تارے ہی تارے نظرآرہے ہیں۔ خان صاحب صرف اپنے 5سال پورے کرنا چاہتے ہیں اس لیے صدر زرداری کی طرح چپکے سے وقت گزار رہے ہیں جو 3سال میں عوام کیلیے کچھ نہ کر سکے وہ اب کیا کر لیں گے۔ اقتدار کے حصول سے قبل پی ٹی آئی کے پاس پاکستان کے تمام سیاسی، سماجی، معاشی، جغرافیائی، معاشرتی مسائل کے حل موجود تھے، اور ان کا تذکرہ خان صاحب گاہے بگاہے کرتے رہتے تھے۔ جب ڈالر 100روپے میں ملتا تھا تو کرنسی کے اُتار چڑھاؤ میں ایک روپے کے فرق سے عمران خان پاکستانی قوم کو بتایا کرتے تھے کہ پاکستان کے اوپر قرضوں میں کتنے ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے مگر آج ڈالر 177 روپے کا ملتا ہے۔ اسکے باوجود قوم کوڈالر ریٹ بڑھنے کے فائدے گنوائے جاتے ہیں۔

یاد رہے نیا پاکستان کی قیادت نے پاکستانی تاریخ میں تاریخ ساز قرضے لیے ہیں اور 70سالہ تاریخ بدل دی ہے۔ ہمیں بتایا جاتارہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ملکی قرضے اتارنے کے لیے اشیاء پر ٹیکس لگا کر مہنگائی کررہی ہے مگر 70سالہ قرضے ایک طرف مگر نئے پاکستان کے ساڑھے 3سالہ قرضے ایک طرف۔ نئے پاکستان میں قرضوں کا بوجھ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ چکا ہے۔ 

پرانے پاکستان میں جب پٹرول 68روپے فی لیٹر ملتا تھا تو پی ٹی آئی قیادت پاکستانی قوم کو بتایا کرتی تھی کہ پٹرول کے ریٹس 45روپے سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں۔ مگر آج جب نیا پاکستان بن چکا ہے تو پٹرول 149روپے فی لیٹر پر پہنچ کر بھی پاکستانی قوم پر یہ احسان عظیم جتلایا جاتا ہے کہ پاکستان میں اب بھی بہت سستا ہے۔ پرانے پاکستان میں 180روپے فی کلو ملنے والا بناسپتی گھی آج 400روپے تک پہنچ چکا ہے۔ ضروریات زندگی کی تقریبا تمام بنیادی اشیاء آٹا، گھی، چینی، چاول، دالیں، سبزیاں، فروٹس، گوشت کے ریٹس پرانے پاکستان کے ریٹس سے بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ 

بجلی اور گیس کے بلوں نے نئے پاکستان میں ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ یاد رہے پرانے پاکستان کے حکمرانوں کو وطن عزیز میں دہشتگردی، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ، معاشی عدم استحکام جیسے بڑے مسائل کا سامنا تھا لیکن ان کرپٹ حکمرانوں نے نہ صرف دہشت گردی کو شکست دی بلکہ گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کیلیے بجلی کے میگا پروجیکٹس بھی لگائے اسکے ساتھ ملکی معیشت کو 5.8کی اوسط سے ترقی بھی دلوائی مگر افسوس آج پاکستان کے معاشی حالات ہم سب کے سامنے ہیں۔ یاد رہے پرانے پاکستان میں عمران خان صاحب کے معیشت دانوں کی اک فوج حکومت ملنے کی منتظر تھی مگر جیسے ہی نیا پاکستان بنا وہ معیشت دانوں کی فوج پتا نہیں کہاں چلی گئی۔

گزشتہ ہفتہ جماعت اسلامی، پی ڈی ایم، ن لیگ، پیپلزپارٹی، عوامی رکشہ یونین و دیگر جماعتوں نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف مظاہرے کیے مگرحکومت کے کانوں پرجوں تک نہ رینگی۔ لوگ 3سال سے مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کی بھٹی میں جل رہے ہیں لیکن حکمران بجائے اس آگ کو بجھانے کے اس پر مہنگائی کا تیل چھڑک کر ہوا دے رہے ہیں۔ منی بجٹ وہی تیل ہے جو عوام کو مہنگائی کی بھٹی میں جلتے ہوئوں کو مزید جلائے گا۔ منی بجٹ اور حکومت کے گیت گانے والوں کو کیا پتہ کہ بھوک کی سختی اور غربت کے تھپیڑے کیا ہوتے ہیں؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔