17 فروری ، 2022
ماڈل قندیل بلوچ کو ان کے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کیا تھا جسے اب بری کردیا گیا ہے۔
قندیل بلوچ کو 15 جولائی 2016 میں ان کے بھائی نے محض اس لیے قتل کردیا تھا کہ قندیل بطور ماڈل ان کے لیے بدنامی کا باعث بن رہی تھی۔
قتل کا مقدمہ مقتولہ کے والد کی مدعیت میں مقتولہ کے3 بھائیوں اور مفتی عبدالقوی سمیت 6 افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا۔
باپ مدعی، بیٹے ملزم اور بیٹی مقتولہ، یہ ٹرائیکا پولیس اور نظام عدل کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں تھا، پولیس اور پراسیکیوشن کی نااہلی اور ناتجربہ کاری ایف آئی آر کے دوسرے دن ہی سامنے آئی جب ایف آئی آر میں قتل کا کوئی گواہ درج ہی نہیں کیا گیا۔
مقتولہ کے بھائی مرکزی ملزم وسیم کو جسمانی ریمانڈ لینے کی بجائے جیل بھجوا دیا گیا جب کہ ساتھ ہی اس نااہلی کا ملبہ تفتیشی افسر پر ڈالتے ہوئے اسے معطل کردیا گیا۔
اس مقدمے کے 5 تفیتشی افسر تبدیل کیے گئے، بلآخر خاتون انسپکٹر عطیہ جعفری کو تفتیش مکمل کرنے کا ٹاسک دیا گیا لیکن ان کی تفتیش کا نتیجہ یہ رہا کہ بعد میں بنائے گئے گواہ عدالتوں میں منحرف ہوگئے۔
قتل کے دوسرے دن ہی مقدمے کے مدعی نے اپنے ایک ملزم بیٹے اسلم شاہین کے حق میں بیان دے دیا، یہ بیان بھی ملتان پولیس کی آنکھیں کھولنے کے لیے ناکافی رہا اور پولیس نے بطور ریاست اپنا کردار ادانہ کیا جس کا نتیجہ سال 2018 میں ہی نکل آیا اور قندیل بلوچ کے والد نے اپنے دوسرے بیٹے مرکزی ملزم وسیم جو قتل کا اعتراف جرم کرچکا تھا اس کو بھی معاف کردیا۔
ابھی ملزم کی رہائی کے لیے کچھ قانونی تقاضے باقی تھے کہ قندیل کے والد وفات پا گئے تو قندیل کی والدہ نے بطور مدعیہ پیروی کی اور ماں نے بھی اپنی بیٹی پر ہونے والا ظلم بھلا کر اپنے بیٹے ملزم وسیم کو معاف کردیا۔
تفتیش کی خامیاں پراسیکیوشن کی پیشہ ورانہ کوتاہیوں کا نتیجہ قتل کیس کے مرکزی ملزم کی بریت کے نتیجے میں سامنے آیا۔
آر پی او ملتان جاوید اکبر نے پولیس تفتیش اور پراسیکیوشن کی خامیوں پر یہ کہہ کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیا کہ یہ واقعہ ان کی تعیناتی سے بہت پہلے کا ہے ۔
وہ قندیل بلوچ جو اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ اپنے باپ کی معذوری کا علاج کرانے اور ماں کے بڑھاپے کو آرام دہ گزارنے کے لیے خرچ کردیتی تھی اسے کیامعلوم تھا کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے والدین ہی اس کے قاتلوں کو معاف کردیں گے۔