پاکستان اور جنرل باجوہ کا اعزاز

14 اگست کو قوم نے یوم آزادی پورے جوش وخروش سے منایا۔ ہر جگہ سبز ہلالی پرچم لہراتا نظر آرہا تھا۔ کچھ لوگ اس اسلامی ملک کے قیام پر خوب رقص کناں بھی رہے، وزیراعظم شہباز شریف بھی اس ناچ سے لطف اندوز ہوتے نظر آئے۔ شاید مذہبی امور کے وزیر صاحب بھی موجود ہونگے۔ بازاروں اور گلی محلوں میں پٹاخوں اور باجوں کی آواز سے اذیت ناک ماحول پیدا کیا گیا۔ نوجوانوں نے سڑکوں اور شاہراہوں پر خوب اودھم مچایا۔

خواتین پر آوازے کسے گئے۔ یہ سب کچھ ایک اسلامی ملک کی آزادی کی خوشی میں کیا گیا۔ اس سے ایک دن قبل عمران خان نے لاہور میں جشن آزادی کے سلسلے میں ایک جلسہ منعقد کیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے ملک کی آزادی کو حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کا اعلان کیا۔ اور ساتھ ہی ملکی معیشت کی بہتری کے لئے حکومت کے ساتھ بات چیت کے کسی بھی امکان کو رد کیا۔

اس موقع پر انہوں نے حکومت کے خلاف اور نئے الیکشن کے انعقاد کے نعرے کو بھی جاری رکھا۔ عمران خان جس ملک پر اپنی حکومت گرانے کا الزام لگاتے رہے، نےاسی ملک کے ساتھ دوستی کی شدید خواہش کا بھی بہت واشگاف الفاظ میں اظہار کیا۔ جلسہ میں موجود لوگ ان سب باتوں پر تالیاں بجاتے اور نعرے لگاتے رہے۔ لوگوں نے یہی کچھ اس وقت اس جلسے میں بھی کیا تھا جس جلسے میں عمران خان نے امریکہ پر الزام لگایا تھا کہ اس نے ان کی حکومت گرانے کی سازش کی ہے۔

اگر ایمانداری سے غور کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم منافقت کے بلند درجے پر فائز ہیں۔ دوسرا یہ کہ کیا ہم خود غرضی اور مفادات کے لئے کسی بھی حد سے گزرنے سے گریز کرتے ہیں؟ دونوں باتوں کا جواب یہ بنتا ہے کہ ہم منافقت میں آخری درجہ پر ہیں اور ہم ذاتی مفادات کے حصول اور خودغرضی کے لئے کسی قسم کی حدودوقیود کی پروا نہیں کرتے۔ عمران خان تو برملا کہتے ہیں کہ یوٹرن لینے اور بار بار لینے اچھے ہی نہیں بلکہ ضروری ہوتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کو75سال ہوگئے لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ اس عرصہ میں ہم نے اس ملک کے لئے کیا کیا۔ ہم نے اس ملک کو کیا دیا۔ یہ ہم کیوں سوچیں کیونکہ غریب اور عام آدمی تو خیر کسی گنتی میں ہی نہیں با اختیار لوگوں نے اس ملک کو لوٹا نہیں بلکہ نوچا ہے۔ جس کا جو دائولگا اس نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔

کیا سیاستدان، کیا بیوروکریسی حتیٰ کہ عام سرکاری افسر اور ملازم آج بھی اس ملک اور عام آدمی کے ساتھ انگریزوں والا سلوک کرتا ہے۔ یہاں عام آدمی کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ اگر اس ملک کو کسی نے کچھ دیا ہے تو وہ پاکستان کی مسلح افواج ہیں، جنہوں نے ہر مشکل گھڑی میں قوم کا ساتھ دیا اور یہاں تک کہ اس ملک کے لئے جانوں کے نذرانے تک پیش کئے ہیں۔ اور کسی نے کیا کیاہے اس ملک اور قوم کے لئے؟

کیا اس کو ملک وقوم کی خدمت کہتے ہیں کہ بیرونی ممالک اور اداروں سے قرضے لو۔ ان کی شرائط اور شرح سود جتنا مرضی ہو۔ کیونکہ قرضے لینے والے جمہوری عناصر یہی سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ سخت شرائط اور بلند شرح سود کے نتائج تواس جمہوریت کے متوالوں نے بھگتنے ہیں۔ انہیں کونسے اپنی جیب سے دینے ہیں۔ میرا اشارہ صرف موجودہ حکمرانوں کی طرف نہیں ہے بلکہ سابقہ تمام جمہوری حکمرانوں کی طرف ہے۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر قوم کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے۔

ظلم یہ بھی دیکھیں کہ پھر ان ہی قرضوں اور بیرونی امداد میں بھی اوپر سے نیچے تک دل کھول کر لوٹ کھسوٹ ہوتی ہے۔ یہی انصاف فراہم کرنیوالے اداروں کا حال ہے کہ دادا کیس کرتا ہے اس کا فیصلہ اس کے پوتوں کے وقت میں ہوتاہے لیکن طاقتوروں کے صبح کے دائر کیسوں کی سماعت دوپہر کو ہوجاتی ہے اور دوتین دن میں فیصلہ آجاتا ہے۔صرف ایک ادارہ بچا ہوا ہے اور وہ ہے افواج پاکستان۔

لیکن اس ملک وقوم کے بدخواہ اس عظیم پاکستانی ادارے میں تفریق ڈالنے اور اسےکمزور کرنے کے درپے ہیں۔ اگرچہ اس ناپاک کوشش میں ایسے عناصر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے لیکن کیا ایسے لوگوں کو لگام نہیں ڈالنی چاہئے۔ یقیناً ڈالنی چاہئے۔ اور شاید اب اس کارخیر کا وقت آگیاہے۔ صرف14اگست کو ناچنے ، باجے بجانے ، پٹاخے چلاکر لوگوں کواذیت دینے اور خواتین پر آوازے کسنے سے پاکستان کاکچھ بھی بھلا اور خدمت نہیں ہوسکتی۔

پاکستان کے سبز ہلالی پرچم اور جھنڈیاں لہرانے جودوسرے دن سڑکوں اور گلیوں میں زمین پر پڑی ہوتی ہیں جشن اور خوشی نہیں بلکہ اس قومی نشان اور عظیم پرچم کی توہین ہے۔ ووٹ لینے کے لئے جھوٹ بولنا اور اس کے لئے ہر حربہ استعمال کرنا ملک وقوم کی خدمت کے لئے نہیں بلکہ کرسی کے حصول کیلئے ہوتا ہے اور ان75 برسوں میں جمہوریت کے نام پر یہی سلسلہ چلتا رہا ہے۔ موجودہ معاشی صورتحال کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔ قوم کو اب ریوڑ بننے کے بجائے بطور باشعور قوم کے سوچنا چاہئے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ برطانیہ کی رائل اکیڈمی میں بطور ِمہمان خصوصی شرکت اور اس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں شمولیت بہت بڑا اعزاز ہے۔ جنرل باجوہ یہ اعزاز حاصل کرنیوالے پہلے پاکستانی آرمی چیف ہیں۔ یہ اعزاز ناصرف دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان اور جنرل باجوہ کی انتھک کوششوں اور کامیابیوں کا اعتراف ہے بلکہ اس سے جنرل باجوہ کی خطے میں امن کی کوششوں کو سراہنے کا اظہار بھی ہوتا ہے۔میں جنرل باجوہ کو یہ اعزاز حاصل کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔