04 اگست ، 2023
ڈینگی بخار مچھروں سے پھیلنے والی عام بیماری ہے اور پاکستان کے مختلف حصوں میں بارشوں کے بعد اس کے کیسز میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
اس بیماری میں تیز بخار کے ساتھ فلو (flu) جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
البتہ زیادہ بیمار ہونے پر جریان خون اور موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
محققین کی جانب سے ڈینگی ویکسین پر کام کیا جارہا ہے مگر ابھی تک وہ تیار نہیں ہوسکی تو جن علاقوں میں یہ بیماری عام ہے وہاں تحفظ کا بہترین طریقہ مچھروں سے بچنا ہے۔
مگر کوئی ڈینگی کا شکار ہوجائے تو اس کو علم کیسے ہوگا؟ تو اس کی علامات جان لیں۔
بیماری کے آغاز پر زیادہ تر افراد میں علامات سامنے نہیں آتیں۔
ڈینگی وائرس سے متاثر مچھر کے کاٹنے کے 4 سے 10 دن بعد جب مریض میں بیماری کی علامات ظاہر ہوتی ہیں تو اکثر افراد اسے دیگر بیماریوں جیسے فلو کا نتیجہ سمجھ لیتے ہیں۔
ڈینگی بخارکے ساتھ سردرد، مسلز، ہڈیوں یا جوڑوں میں تکلیف، متلی، قے، آنکھوں کے اندر تکلیف، غدود سوج جانا اور خارش جیسی علامات سامنے آسکتی ہیں۔
بیشتر مریض ایک ہفتے کے اندر ٹھیک ہوجاتے ہیں، مگر کئی بار علامات کی شدت بڑھ جاتی ہے اور اس صورت میں یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔
ڈینگی کی شدت اس وقت بڑھتی ہے جب شریانوں کو نقصان پہنچے اور ان سے خون کا رساؤ ہونے لگے، جبکہ خون کو جمنے میں مدد فراہم کرنے والے خلیات (پلیٹلیٹس) کی تعداد بہت زیادہ کم ہوجائے۔
اس کا نتیجہ جسم کے اندر جریان خون، اعضا کے افعال فیل ہونے اور موت کی شکل میں نکل سکتا ہے۔
ڈینگی کی سنگین شدت جان لیوا ہوتی ہے اور اس کی انتباہی علامات بخار اترنے کے ایک یا 2 روز بعد ظاہر ہوسکتی ہیں، جن میں پیٹ میں شدید درد، بار بار قے، ناک یا مسوڑوں سے خون بہنا، پیشاب، قے میں خون، سانس لینے میں مشکل محسوس ہونا یا سانس پھول جانا، تھکاوٹ اور چڑچڑا پن قابل ذکر ہیں۔
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ ڈینگی کی شدت بڑھ جائے تو موت کا خطرہ ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں فوری طور پر طبی امداد کے لیے رجوع کیا جانا چاہیے۔
خاص طور پر اس وقت جب آپ کے اردگرد ڈینگی کے کیسز سامنے آرہے ہوں تو بخار ہونے اور دیگر علامات نظر آنے پر ڈاکٹر سے رجوع کرکے ٹیسٹ کرانا چاہیے۔
اگر آپ کو ماضی میں ڈینگی کا سامنا ہوچکا ہے تو دوبارہ اس بیماری کے شکار ہونے پر شدت زیادہ ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے جبکہ مداقعتی نظام کمزور ہونے پر بھی یہی خطرہ ہوتا ہے۔
یہ یاد رکھیں کہ ڈینگی ایک سے دوسرے فرد میں منتقل نہیں ہوتا بلکہ مچھروں کے کاٹنے سے ہی ہوتا ہے۔
ڈینگی سے بچاؤ کے لیے موسکیٹو repellentsکا استعمال کریں۔
گھر میں اے سی ہو تو اسے چلائیں، کھڑکیوں اور دروازوں سے مچھروں کو آنے سے روکنے کی کوشش کریں، آستینوں والی قمیض اور پیروں میں جرابیں پہنے۔
اگر گھر میں کسی کو ڈینگی ہوگیا ہے تو اپنے اور دیگر گھر والوں کے تحفظ کے لیے بہت زیادہ احتیاط کریں کیونکہ مریض کو اگر کوئی عام مچھر بھی کاٹ لے تو ڈینگی وائرس اس میں منتقل ہوجاتا ہے جس کے بعد وہ مچھر وائرس کو آگے پھیلا سکتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔