بلاگ
Time 10 ستمبر ، 2022

کھیل بدتمیزی کا نام نہیں

آج کل متحدۂ عرب امارات میں کرکٹ کا میلہ سجا ہوا ہے، ایشیا کپ جاری ہے،کرکٹ کھیلنے والے ایشیائی ملکوں کے مابین ہونے والے میچز کولوگ بڑی دلچسپی سے دیکھنے آتے ہیں ۔شاید اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں بعض میچ روایتی حریفوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ شارجہ اور دبئی میں کھیلے جانے والے تمام میچ ہی دلچسپ تھے آخری اوور تک حیرت، خوف، دعائوں اور نعروں کے ساتھ دلچسپی رکھنے والے میچوں نےشائقین کرکٹ کو اپنی طرف خوب متوجہ کیا ۔ خاص طور پر پاک بھارت میچوں سے شائقین کی بڑی تعداد نے خوب لطف اٹھایا۔

بھارت کے خلاف پہلا میچ پاکستان ہار گیا تھا اس ہار کی بڑی وجہ پاکستانی بیٹنگ لائن کی ناکامی تھی، پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کو انڈیا سے شکست کے بعدیہ تک کہا گیا کہ وہ بس نام کی حد تک بہادری کی علامت ہیں۔ قومی ٹیم کے دوسرےکھلاڑی فخر زمان نے شاید وکٹ پر کھڑے رہنا سیکھا ہی نہیں ،وہ آتے ہیں اور آتے ہی ہٹنگ شروع کر دیتے ہیں لیکن ’’ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد کسے‘‘ کے مصداق پویلین کو لوٹ جاتے ہیں، اسی وجہ سے ان پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ شائد وہ سفارشی ہیں اوران کی سفارش بھی بڑی تگڑی ہے،یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ۔

مثلاً ایک بات یہ کہ ملتان کےشان مسعود بابر اعظم کے ہم پلہ کھلاڑی ہیں،اسی طرح کلیم اللہ طور ہے، لاہور قلندر کے رانا عاطف اس بلے باز کو دیکھ لیں یا پی سی بی کے کرم فرما ان پر غور کر لیں، ویسے تو اپنے رمیز راجا بڑے پکے راوین ہیں وہ بھی اس معاملے کو دیکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ آخر کب تک ہماری بیٹنگ لائن فلاپ ہی ہوتی رہے گی، بائولرز کب تک بیٹرز کا بوجھ اٹھائیں گے ؟ خیر انڈیا سے دوسرا میچ پاکستان نے جیت لیا حالانکہ بھارتی بلے بازوں نے ایک بڑا سکور کیا تھا مگر پاکستان نے خوب محنت کرکے ٹارگٹ حاصل کیا اور میچ جیت گیا ۔ پاکستان نے توحساب برابر کر دیا مگر ایک دن بعد سری لنکا نے بھی بھارت کو دھول چٹادی ۔

سری لنکن ٹیم نے ویرات کوہلی سمیت دیگر تمام کھلاڑیوں کا غرور خاک میں ملا دیا ۔سری لنکا سے شکست کھانے کے بعد بھارت کے لئے ’’اگر مگر‘‘ کا کھیل شروع ہو گیا۔ انہوں نے اس ’’اگر مگر‘‘ کیلئے افغانستان کو چنا، افغان کھلاڑیوں کی بڑی مجبوری آئی پی ایل ہے، لیکن کیا عجیب مجبوری ہے کہ اس مجبوری کے باوجود وہ اپنے محسنوں کو آنکھیں بھی دکھاتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ آپ نے بدھ کے روز شارجہ اسٹیڈیم میں دیکھا۔ افغان کھلاڑی پاکستانی کھلاڑیوں کے آئوٹ ہونے پر ذومعنی اشارے کرتے رہے پھر ایک مرحلہ وہ آیا جب آصف کے آئوٹ ہونے پر نوبت گالیوں تک آ گئی اور افغانیوں نے اس سے بھی گریز نہ کیا، انہوں نے آصف سے جونہی بدتمیزی کی تو آصف نے بھی بلا اوپر کر لیا۔ بیچ میں امپائر اور کھلاڑی آنے کے باوجود افغان بائولر مزید بڑبڑاتا رہا ۔ اس بدتمیزی کا جواب لوئر دیر کے نسیم شاہ نے اگلی دو بالوں پر دو چھکے لگا کر دیا۔نسیم شاہ کے لئے یہ ایک مشکل مرحلہ تھا، آخری وکٹ تھی آخری اوور تھا، گیارہ رنز درکار تھے اور بدتمیزی کا جواب بھی دینا تھا ۔

پتہ نہیں مظفر شاہ کے فرزند نسیم عباس شاہ نے کیا سوچا کہ دوبالوں پر دو چھکے جڑ دیئے ۔ان چھکوں سے غرور کا سر نیچا ہوا، آئی پی ایل کے فنکاروں کی آنکھیں نمناک تھیںتو افغانیوں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا،انہوں نے اسٹیڈیم میں سے کرسیاں اکھاڑ کر پاکستانیوں پر پھینکنا شروع کر دیں۔ یو اے ای میں سڑکوں پر بھی ہنگامے ہوئے،ادھر پاکستان میں بھی پیرودھائی راولپنڈی میں ناخوشگوار واقعہ پیش آیا،جو کچھ اسٹیڈیم میں ہوا اس پر آئی سی سی کو سخت ایکشن لینا چاہئے۔جو کچھ تماشائیوں کے درمیان اسٹیڈیم کے اندر یا باہر ہوا اس پر عرب امارات کی حکومت کو ایکشن لینا چاہئے کیونکہ کھیل کو جنگ یا بدتمیزی سے بچانے کے لئے ایکشن لینا ضروری ہے۔

افغان کھلاڑیوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ ان میں سے اکثر تو پیدا ہی پاکستان میں ہوئے ہیں، یہیں گلیوں میں کرکٹ کھیل کر وہ کھلاڑی بنے، ان کھلاڑیوں سمیت افغان قوم کو پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ پاکستان نے مشکل ترین وقت میں انہیں نہ صرف اپنے گھر میں رکھا بلکہ انہیں ہر بنیادی ضرورت مہیا کی ، کیااحسان کا بدلہ یوں دیا جاتا ہے؟یہ معاملات تو کبھی انڈیا کے ساتھ بھی ہمارے کھلاڑیوں یا تماشائیوں کو پیش نہیں آئے ۔ بہر حال بھارت اور افغانستان کی مشترکہ محنت بھی پاکستان کو فائنل میں جانے سے نہ روک سکی اور انڈیا کے لئے فائنل کا دروازہ نہ کھول سکی ،اب یہ دونوں گھروں میں بیٹھ کر فائنل دیکھیں۔

افغان ٹیم کو سوچنا چاہئے کہ ان کے بیٹنگ کوچ یونس خان او ربائولنگ کوچ عمر گل ہیں، یوں ان کی کوچنگ بھی پاکستانی ہی کر رہے ہیں ۔ پی ڈی ایم حکومت میں شامل خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین محسن داوڑ کو بھی اپنی سوچ پر نظرثانی کرنی چاہئے کہ وہ کس خوش فہمی میں افغانستان کے وکیل بنے ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت کو بھی شرم ا ٓنی چاہئے کہ ان کا چیئرمین امور خارجہ کمیٹی کس طرح کے خیالات کا مالک ہے۔ بقول محسن نقویؔ

ہجوم شہر سے ہٹ کر، حدود شہر کے بعد

وہ مسکرا کے ملے بھی تو کون دیکھتا ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔