دنیا
26 نومبر ، 2012

ممبئی حملوں کی چوتھی برسی آج منائی جارہی ہے

ممبئی حملوں کی چوتھی برسی آج منائی جارہی ہے

ممبئی…26 نومبر، 2008 کو اجمل قصاب اور دیگر9 دہشت گردوں نے ممبئی شہرپر حملہ کیا۔ حملے میں ایک سو چھیاسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔27 نومبر، 2008کو اجمل قصاب گرفتارہوا۔27-28 دسمبر، 2008 کو اجمل قصاب کی شناخت پریڈ ہوئی جبکہ 30 نومبر، 2008 کو قصاب نے پولیس حراست میں ارتکابِ جرم کا اعتراف کر لیا۔مقدمے کے جج اور وکلاء کی تقرری عمل میں آئی 13 جنوری، 2009 ایم ایل تھلان کو 26/11 کے مقدمے میں خصوصی جج مقرر کیا گیا۔16 جنوری، 2009 کو اجمل کے مقدمے کی سماعت کے لیے آرتھر روڈ جیل کو منتخب کیا گیا۔22 فروری، 2009 روشن نکم کو سرکاری وکیل مقرر کیا گیا۔25 فروری، 2009 میٹروپولیٹن کورٹ میں قصاب کے خلاف فردِ جرم عائد کی گئی ۔1 اپریل، 2009 کو خصوصی عدالت نے انجل واگھمارے کو قصاب کا وکیل مقرر کیا گیا۔20 اپریل، 2009 اجمل قصاب کو 312 مقدمات میں ملزم بنایا گیا۔29 اپریل، 2009 ماہرین کی رائے پر عدالت کا فیصلہ قصاب نابالغ نہیں ہے۔6 مئی، 2009 اجمل قصاب پر 86 الزامات لگائے گئے جس کااجمل قصاب نے انکارکیا۔23 جون، 2009کو حافظ سعید، ذکی الرحمٰن لکھوی سمیت 22 افراد کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے۔16 دسمبر، 2009 کواستغاثہ نے 26/11 مقدمے میں جرح مکمل کی۔9 مارچ، 2010 کو آخری بحث شروع ہوئی۔31 مارچ، 2010کو عدالت نے فیصلہ تین مئی تک کے لیے محفوظ کر لیا۔3 مئی، 2010کو عدالت نے قصاب کو مجرم قرار دیا، صبا الدین احمد اور فہیم انصاری کوالزامات سے بری کیا۔6 مئی، 2010کو قصاب کو خصوصی عدالت نے موت کی سزا سنائی۔اجمل قصاب نے ممبئی ہائی کورٹ میں اپیل کی18 اکتوبر، 2010کو ممبئی ہائی کورٹ میں قصاب کی اپیل کی سماعت شروع۔ قصاب کی ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعے پیشی ہوئی۔19 اکتوبر، 2010کو قصاب نے ذاتی طور پر عدالتی کارروائی میں حصہ لینے کا مطالبہ کیا۔21 اکتوبر، 2010کو قصاب نے ذاتی طور پر عدالت میں حصہ لینے کی بات اپنے وکیل کیذریعے دہرائی۔25 اکتوبر، 2010کو ہائی کورٹ کے ججوں نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی۔27 اکتوبر، 2010کو وکیل روشن نکم نے نچلی عدالت کی طرف سے دی گئی قصاب کی موت کی سزا کو درست قرار دیا۔29 اکتوبر، 2010کو روشن نکم نے الزام عائد کیا کہ اجمل قصاب نے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔19 نومبر، 2010کو نکم نے عدالت کو بتایا کہ 26/11 کے حملہ آور ملک میں مسلمانوں کے لیے الگ ریاست چاہتے تھے۔22 نومبر، 2010کو نکم نے اجمل قصاب کو جھوٹا قرار دیا۔23 نومبر، 2010کو ہائی کورٹ کے ججوں نے ایک بار پھر سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی۔24 نومبر، 2010کو نکم کے ہائی کورٹ میں دلائل۔ نچلی عدالت نے قصاب کے اقبالی بیان کو قبول کرنے میں غلطی کی تھی۔25 نومبر،2010کو اجمل قصاب کے وکیل امیل سولیر نے جرح شروع کی۔ نچلی عدالت کی کارروائی کو غلط قرار دیتے ہوئے ازسرنو سماعت کا مطالبہ کیا۔30 نومبر 2010کو سولیر نے دلیل دی کہ اجمل قصاب کے خلاف ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔2 دسمبر 2010کو وکیل دفاع نے عدالت میں کہا کہ اجمل قصاب پاکستان سے کشتی کے ذریعے نہیں آیا تھا کیونکہ کشتی میں صرف دس افراد ہی سما سکتے ہیں۔3 دسمبر 2010کو وکیل کا کہنا تھا کہ اجمل قصاب کو پھنسانے کیلئے پولیس نے جھوٹی کہانی بنائی۔5 دسمبر 2010کو دفاع کے وکیل سولیر نے دلیل دی کہ ثبوتوں کو دبا دیا گیا ہے۔ صرف کچھ سی سی ٹی وی فوٹیج عدالت میں دکھائی گئی۔6 دسمبر 2010کو سولیر نے فوٹیج میں دکھائی گئی تصویروں کو غلط قرار دیا۔7 دسمبر 2010کو قصاب نے پولیس افسر ہیمانت کرکرے اور دو دیگر پولیس افسران کے قتل سے انکار کیا۔ اس کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے جسم میں پائی گئی گولیاں اجمل قصاب کی رائفل سے نہیں ملتی ہیں۔8 دسمبر 2010کو سولیر کا کہنا تھا کہ پولیس نے گرگام چوپاٹی میں 26 نومبر 2008 کو جھوٹی جھڑپ کا ڈرامہ کرکے قصاب کو پھنسایا ہے، ساتھ ہی موقعے پر اجمل قصاب کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے اس کی گرفتاری کو غلط بتایا۔9 دسمبر 2010کو اجمل قصاب کے وکیل نے اس کے خلاف پیش کیے گئے ثبوتوں کو کمزور بتاتے ہوئے پولیس افسر کرکرے کو مارنے سے انکار کیا۔10 دسمبر 2010کو اجمل قصاب کے وکیل نے نچلی عدالت میں دکھائی گئی کشتی کا معائنہ کیا اور اس کشتی کو دس افراد کے آنے کے لیے نا کافی بتایا اور دعویٰ کیا کہ استغاثہ کا دعویٰ غلط ہے۔13 دسمبر 2010کو قصاب نے اپنی ذہنی حالت کا معائنہ کرنے کے لیے طبی ماہرین کے ایک پینل کی تقرری کرنے کی بات کی۔14 دسمبر 2010کو عدالت نے قصاب کی ذہنی حالت کا معائنہ کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔21 دسمبر 2010کو عدالت نے 26/11 کے معاملے میں فہیم انصاری کو بری کیے جانے کے خلاف ریاست کی اپیل سنی۔22 دسمبر 2010کو سرکاری وکیل نکم نے دلیل دی کہ نچلی عدالت نے فہیم انصاری اور صباالدین احمد کو بری کرنے میں غلطی کی تھی۔21 فروری 2011کو ممبئی ہائی کورٹ نے اجمل قصاب پر نچلی عدالت کے فیصلے کو صحیح قرار دیتے ہوئے اس کی اپیل مسترد کر دیا اور فہیم انصاری اور صباالدین احمد کو بری کر دیا گیا۔اجمل قصاب نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں اپیل کی ،29 جولائی 2011کو قصاب نے پھانسی کی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔10 اکتوبر 2011کو سپریم کورٹ نے اجمل قصاب کی پھانسی کی سزا معطل کر دی۔31 جنوری 2012کو سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت شروع ہوئی۔25 اپریل 2012کو اجمل قصاب کی اپیل پر عدالت نے سماعت مکمل کی اور فیصلہ محفوظ رکھا۔28 اگست 2012کو اجمل قصاب کی پھانسی کی سزا کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا۔ فہیم انصاری اور صباالدین احمد کے ممبئی ہائی کورٹ کی رہائی کے فیصلے کو بھی برقرار رکھا گیا۔ ان دونوں پر بھارت سے ممبئی حملہ آوروں کی مدد کرنے کا الزام تھا۔اجمل قصاب نے بھارتی صدر سے رحم کی اپیل کی،16 اکتوبر 2012کو صدر کے سامنے رحم کے لیے بھیجی گئی قصاب کی درخواست وزارت داخلہ نے مسترد کر دی اور اپنی سفارش صدر کو بھیجی۔5 نومبر 2012کو صدر نے قصاب کی رحم کی درخواست مسترد کر دی۔7 نومبر 2012کو مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے اجمل قصاب کی فائل پر دستخط کیئے۔8 نومبر 2012کو اجمل قصاب کو موت کی سزا دیئے جانے کی فائل مہاراشٹر حکومت کو بھیجی گئی، اسی دن مہاراشٹر حکومت نے 21 نومبر کو موت کی سزا پر عملدرآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔21 نومبر 2012کو قصاب کو صبح 7کو30 بجے رازداری سے پھانسی دے دی گئی۔

مزید خبریں :