27 نومبر ، 2012
کراچی(اعظم علی/نمائندہ خصوصی) سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری نے پیرکو کراچی امن و امان کیس کی سماعت کے دوران حکومت سندھ کے اداروں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ افسران اور اہلکار آئین و قوانین سے نا بلد ہیں اور ادارے افسران کی ارادوں کے مرہون منت ہیں۔ سماعت کے دوران پیرول پررہا کئے جانے والے ملزمان کے معاملے میں عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ کا گزشتہ حکم عدالت کو پیش کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق تھا اب نئے اعداد و شمار پیش کردیئے گئے ہیں اور عین ممکن ہے کہ اگلی سماعت میں اعداد و شمار مختلف ہوں ۔ ایک موقع پر عدالت نے اظہا ر برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پیرول پر چھوڑے گئے ملزمان کے لئے دستاویزات اور عدالت میں غلط الفاظ استعمال کیا جارہا ہے پیرول پر ملزم کورہا نہیں کیا جاتا صرف دو یا تین دن کے لئے رشتے دار کی تدفین کے کسی پکی ترین ضمانت پر چھوڑا جاتا ہے رہائی نہیں ہوتی جبکہ محکمہ داخلہ نے قتل کے ملزمان کو تین تین برس کے لئے کیسے رہا کیا قتل کے ملزم کو عدالت کے علاوہ کوئی ادارہ نہیں چھوڑ سکتا حتیٰ کہ صدر پاکستان کے پاس بھی اس کے اختیارات نہیں۔ اور یہ کہ کراچی میں ہونے والے سنگین جرائم میں 95 فیصد عادی مجرم ملوث ہیں حکومت کے پا س ان کا ریکارڈ کیوں نہیں ہے اور اب تک ایسا سسٹم کیوں نہیں بنایا گیا کہ کمپیوٹر کی ایک کلک پر مجرم کی تما م تفصیلات موجود ہوں اور یہ بھی پتہ چل سکے کے اس وقت کونسا عادی مجرم کہا ہے۔ ایک موقع پر رہائی کرنے والی کمیٹی کے ارکان اور چیرمین کے تقرر کے نوٹیفیکیشن پر ریمارکس دیتے ہوہے کہا کہ محکمہ داخلہ حکومت سندھ نہیں یہ کمیٹی اور اس کے ارکان خود ساختہ ہیں اگر یہ حکومت کا نوٹییفیکیشن ہے تو اس کی سمری اس پر سفارشات ابہام اور اعتراضات کے دستاویزات پیش کئے جائیں ایک موقع پر عدالت نے کہا کہ آپ تسلیم کیوں نہیں کرتے کے حساس ترین معاملات میں قوانین کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے ۔ سماعت کے دوران سرکاری افسران نے عدالت کے سوالات پر لاجواب ہوکر مجموعی طور پر 3154 مرتبہ مائی لارڈ کا لفظ استعمال کیا جبکہ پولیس ، جیل ، محکمہ داخلہ الیکشن کمیشن سمیت دیگر اداروں کے افسران تقریبا سہمے رہے۔ ایک موقع پر عدالت نے کہا کہ آپ کے پاس ریکارڈتک تو ہے نہیں مائی لارڈ کا لفظ سن کر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کے قیام پاکستان سے لے کر اب تک تما م قیدیوں کا ریکارڈ پیش کیا جائے اور سندھ میں دو مرتبہ جیلیں ٹوڑیں کئی ہیں ان پر کمیشن بنے ان کی رپورٹیں بھی عدالت میں پیش کی جائیں۔ ایک موقع پر عدالت نے محکمہ داخلہ کی پیرول رہائی کمیٹی کے ایک رکن کو کہا کہ عدالت میں آپ ثابت کررہے ہیں کہ تمام افراد کو مہربانیاں کرکے چھوڑا گیاہے قتل کے ملزمان پر تو پیرول پر چھوڑنے کا تصور نہیں آپ نے صرف تین دن بعد گڈ کنڈکٹ میں کیسے چھوڑدیا ۔ سماعت مین نصف گھنٹے کی بریک کے دوران سرکاری افسران انتہائی متفکر رہے اور ایک دوسرے کو برق رفتاری سے دستاویزات ڈھونڈ نکالنے کا کہتے رہے وقفے کے بعد بھی سرکاری افسران انتہائی متفکر رہے۔