07 نومبر ، 2022
امریکا میں 8 نومبر کو ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں اگر کوئی اقلیتی کمیونٹی اچھی طرح سے جاگی ہوئی ہے تو وہ مسلم امریکنز ہیں۔
ان کے اشوز کیا ہیں؟ مسلم امریکنز سے متعلق چند اہم حقائق :
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو امریکا میں مختلف ممالک سے آکر آباد ہونے والے تقریباً 36 لاکھ مسلمان ہیں۔ یہ مجموعی آبادی کا محض ایک اعشاریہ ایک فیصد ہیں جبکہ مسلم ووٹرز کی تعداد صرف گیارہ سے بارہ لاکھ ہے۔ یہ الگ بات کہ اس قدر قلیل تعداد کے خلاف غیر مسلم امریکیوں کو ڈرایا جاتا رہا ہے۔
سیاسی شعور اجاگر ہوا ہے تو ووٹ دینے کے اہل مسلمانوں کی بڑی تعداد نے اس بار خود کو ووٹر کی حیثیت سے نہ صرف رجسٹرڈ کرایا ہے بلکہ مختلف عہدوں پر الیکشن لڑنے والے مسلم امیدواروں کی تعداد بھی ماضی سے کہیں زیادہ بڑھی ہے۔
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2016 کے صدارتی انتخابات میں مسلم امریکی شہریوں کے خود کو ووٹر کی حیثیت سے رجسٹرڈ کرانے کی شرح 60 فیصد تھی۔ اس سال یہ بڑھ کر 81 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہی نہیں، مختلف ریاستوں میں ایوان،کونسل اور بورڈ سمیت مختلف عہدوں پر منتخب ہونے کے لیے بھی مسلم امریکیوں کی غیر معمولی تعداد میدان میں اتری ہے۔
دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکا کی 50 میں سے 28 ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی میں سن 2020 میں 181 مسلم امیدواوں نے حصہ لیا تھا۔ جن میں سے 81 یعنی 44 فیصد کامیاب ہوئے تھے۔ ان میں پہلی فلسطینی امریکی رکن کانگریس راشدہ طلیب، پہلی صومالی امریکی الہان عمر اور آندرے کارسن شامل تھے۔ تینوں ہی کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ اس وقت بھی 160 مسلم اہلکار مختلف عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
یہ قابل ذکر ہے کہ کیتھ ایلیسن سن 2007 میں ایوان نمایندگان کے پہلے مسلم رکن منتخب ہوئے تھے جبکہ سینیٹ میں تاحال کوئی مسلم امریکن نہیں۔ اس بار تاریخ بدل سکتی ہے۔
ترک امریکن ڈاکٹر مہمت عوز ریاست پنسلوینیا سے ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر امریکی سینیٹ کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ کامیاب ہارٹ سرجن اور مقبول ٹی وی میزبان ہیں۔
ڈاکٹر مہمت کی توثیق کرنے والوں میں امریکا کے وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں جنہوں نے 2017 میں مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی لگائی تھی۔کامیاب ہوئے تو ڈاکٹر عوز پہلے مسلم امریکن رکن سینیٹ بنیں گے۔
پاکستان میں امیدواروں کا بلا مقابلہ منتخب ہونا کوئی بڑی بات نہیں مگر اس بار ایک مسلم خاتون امریکا میں بلا مقابلہ منتخب ہوں گی۔
کینیا کے پناہ گزیں کیمپ میں پیدا ہونے والی صومالیہ کی منا عبدی 13 برس کی عمر میں امریکا منتقل ہوئی تھیں۔ اس وقت ان کی عمر 26 برس ہے اور وہ ریاست مین کے ڈسٹرکٹ 95 سے ڈیموکریٹ پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔
منا عبدی کی قسمت یوں جاگی ہے کہ ان کے حریف ری پبلکن فریڈ سینبورن سینڈرز بغیر وجہ بتائے الیکشن سے اچانک دستبردار ہوگئے ۔ سینڈرز نے انتہائی متنازعہ بیان دیا تھا کہ مسلمانوں کو امریکا میں عوامی عہدہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
سینڈرز نے 18 اگست کو جب الیکشن نہ لڑنے کا بم گرایا تو اس قدر دیر ہوچکی تھی کہ ری پبلکن پارٹی کے لیے ان کا متبادل امیدوار کھڑا کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔
مسلم امریکن ووٹرز کی اہمیت بھی پچھلے کچھ عرصے میں بڑھی ہے۔ سروے کے مطابق مسلم ووٹرز میں سے 91 فیصد کا کہنا ہےکہ وہ اس بار ووٹنگ میں حصہ لیں گے اور ان میں سے 63 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ ڈیموکریٹس کو ووٹ دیں گے۔
بعض ریاستوں کے ان حلقوں میں جہاں کانٹے کا مقابلہ ہے اور محض چند ہزار ووٹ پانسہ پلٹ سکتے ہیں، وہاں مسلمانوں کے ووٹ نظر انداز نہیں کیے جاسکتے ۔ ایسی ریاستوں میں مشی گن سرفہرست ہے۔
سن 2021 میں مشی گن ہی کے شہر ہمترامک کی پوری سٹی کونسل مسلم اراکین پر مشتمل تھی۔ نتیجہ یہ نکلا تھا کہ 42 برس کے یمنی امریکن عامر غالب ہمترامک کے مئیر منتخب کر لیے گئے تھے۔
مشی گن کے برعکس کیلی فورنیا میں مسلم امریکن امیدواروں کے حلقوں میں زیادہ تر افراد مسیحی، یہودی، ہندو، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔
کیلی فورنیا کے جس حلقے سے پاکستانی امریکن ڈاکٹر آصف محمود الیکشن لڑ رہے ہیں وہاں پاکستانیوں ہی نہیں، مسلم امریکنز کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ محدود مالی وسائل کے باوجود ڈاکٹر آصف محمود نے بھرپور مہم چلانے والی حریف کو نکیل ڈالی ہوئی ہے۔
ان کے حلقے ڈسٹرکٹ 40 میں ای میل اور پوسٹل بیلٹ سے اب تک ایک لاکھ 8 ہزار ووٹ ڈالے گئے ہیں۔جن میں 43 ہزار ری پبلکنز اور 40 ہزار ڈیموکریٹس نے ڈالے ہیں۔ یعنی فی الحال ڈیموکریٹ ٹرن آؤٹ 24 فیصد ،ری پبلکن ٹرن آؤٹ 23 فیصد اور انڈی پینڈینٹس کے ووٹوں کی شرح 23 فیصد ہے۔ یہ واضح نہیں کہ آیا تمام ری پبلکنز یا ڈیموکریٹس نے اپنی ہی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ ڈالا ہے یا ان میں سے بعض نے حریف جماعت کے امیدوار کا ساتھ دیا۔
بہرحال ان مڈٹرم الیکشنز میں مسلم امریکنز کی نظریں ایوان کا الیکشن لڑنے والے ڈاکٹر آصف اور سینٹ کا الیکشن لڑنے والے ڈاکٹر مہمت پر مرکوز ہیں جن کا انتخاب تاریخی نوعیت کا حامل ہوگا۔
مسلم امریکنز کے مقابلے میں یہودی امریکنز کی تعداد دو گنا یعنی تقریباً 76 لاکھ ہے تاہم موجودہ کانگریس میں 10 یہودی سینیٹرز اور ایوان نمائندگان میں 27 یہودی امریکن اراکین ہیں۔ یہ تعداد یہودی کمیونٹی کے سیاسی شعور کی علامت ہے۔
بھلا ہو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا، انہوں نے مسلم امریکنز کو بھی سیاسی بلوغت بخشی ہے۔اب مسلم امریکنز بھی صف اول کے رہنماؤں کی فنڈریزنگ سے آگے بڑھ کر الیکشن میں نہ صرف خود حصہ لے رہے ہیں بلکہ اپنی نئی نسل کو اس مقصد کے لیے تیار کر رہے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔