18 نومبر ، 2022
صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے، اسی طرح دن بھر جھوٹ بولنے والا اگر شام کو سچ بول دے تو اسے تھوڑا بہت سچا لیڈر ماننے میں مضائقہ نہیں۔ جہاں تک تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا تعلق ہے تو مجھے شک ہے کہ امریکی سازش کے الزام پر یوٹرن کے بعد وہ دوسرا بڑا سچ بھی بولیں گے اور نتیجے میں قوم انہیں سچا ترین لیڈر مان لے گی۔
پی ٹی آئی لاکھ صفائیاں پیش کرے، تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنی حکومت ہٹائے جانے کو امریکی سازش سے تعبیر کرنے والے عمران خان نے ایک بڑا سچ بول ہی دیا ہے۔بلواسطہ طورپر وہ مان گئے ہیں کہ سازش کا بیانیہ ڈھونگ تھا اور اس پرعوام میں جتنی گنڈیریاں بیچنی تھیں، بیچ لیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے امریکی جریدے کو انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ وہ اب امریکا کو مورد الزام نہیں ٹہراتے۔ عمران خان کے اپنے الفاظ میں 'جہاں تک میرا تعلق ہے، یہ معاملہ ختم ہوچکا، میں نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔'سوال یہ ہے کہ معاملہ ختم کیسے ہوگیا؟ اسے پیچھے چھوڑا کیوں؟
کیا سائفر کی بنیاد ڈونلڈ لو نے عمران خان کے سامنے ناک رگڑی ہے یا پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے خان صاحب کے قدموں پر سر رکھ کر گڑ گڑا کر معافی مانگی ہے ؟ شاید میں نے کپتان کو ہلکا لے لیا، ضرور امریکی صدر بائیڈن نے پی ٹی آئی سربراہ کو ٹیلی فون کرکے کہا ہو گا کہ 'خان صاحب غلطی سے مشٹیک ہوگئی، اب کی بار معاف کردیں، اگلی بار بھول کے بھی ایسا نہیں کروں گا'۔
اگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو ایسی دریا دلی کیوں؟ کس بات کا خوف کھا رہا ہے یا چمک اپنی جانب کھینچ رہی ہے کہ عمران خان نہ صرف سب بھول گئے بلکہ یہ بھی کہا کہ 'جس پاکستان کی قیادت میں کرنا چاہتا ہوں، اس کے سب سے اچھے تعلقات ہونا چاہئیں، بلخصوص امریکا کے ساتھ۔'
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ 'بولو تاکہ پہچانے جاؤ' اور یہ قول بھی ہے کہ 'خاموش رہو، تاکہ عافیت میں رہو' شاید عمران خان کو یہ دونوں اقوال سمجھنے اوران پر عمل کی ضرورت ہے کیونکہ جو وہ جان بوجھ کر یا لاپرواہی میں بول گئے ہیں اس سے یوٹرن کے ساتھ ساتھ یہ بات پھر واضح ہوگئی ہے کہ وزیراعظم رہ کر بھی وہ سفارتکاری کی الف ب نہیں جان سکے۔
تیسری دنیا ہی نہیں، ترقی یافتہ ترین ممالک کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ 'تمام ممالک سے اچھے تعلقات' قائم کرلیں۔سادہ الفاظ میں یہ 'لالی پاپ' یا 'افیون کی گولی' ہے۔
یوکرین معاملہ ہی لیں، کیا سلامتی کونسل کے دو مستقل اراکین برطانیہ اور فرانس اور یورپ کا سب سے بڑا صنعتی ملک جرمنی اس اشو پر امریکا اور روس دونوں سے ایک جیسا تعلق رکھ پائے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنے قیام سے اب تک امریکا کا اتحادی ہے۔ مستقبل میں کوئی کرشمہ ہی اسے سپر پاور سے دور کرسکتا ہے ورنہ اس کے آثار نہیں۔
جہاں تک 'مالک اور غلام' کی بات ہے تو کیا برطانیہ سمیت یورپی ممالک غلام ہیں جو معاشی بحران جھیلنے کے باوجود یوکرین معاملے پر امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں؟ زمینی حقائق پر بات کی جائے تو اگر آپ کسی سپر پاور کے اتحادی ہوں تو اس کے حریف سے تعلق تو رکھ سکتے ہیں مگر علیک سلیک کی حد تک۔
کنٹینر سے اتر کر کچھ سوچنے، سمجھنے یا پڑھنے لکھنے کا وقت ملا ہوگا جو عمران خان نے اپنے دورہ روس پر نظر ڈالی ہے۔ وہی دورہ جس کی بنیاد پر عمران خان کہتے رہے ہیں کہ امریکا کو ایسا ناگوار گزرا کہ اس نے ساری جماعتوں کا اتحاد بناکر پی ٹی آئی حکومت گروادی۔ اسی لیے عمران خان نے اس تاریخی دورے کو اب 'ایمبیریسنگ' یعنی شرمناک یا پریشان کن قرار دے دیا ہے۔
عمران خان کی ان سفارتی قلابازیوں کی صفت کو پاکستان میں اگر کوئی سب سے بہتر جانتا ہے تو وہ روس کے سفیر ڈینئلا گینیک ہیں جنہوں نے آج سے 5 ماہ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ 'عمران خان کو معلوم ہوتا کہ جس روز وہ ماسکو کا دورہ کررہے ہیں،اسی دن روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف آپریشن ہوگا تو وہ اس دورے سے گریز کی کوشش کرتے'۔
عمران خان نے محض روس کےدورے ہی کو ایمبیریسنگ نہیں کہا بلکہ امریکا میں اپنا امیج بہتر کرنے کے لیے لابنگ فرم کی خدمات بھی لی ہیں۔ امریکا میں پی ٹی آئی اس ٹاسک پر لگی ہے کہ ایک کے بعد دوسرے رکن کانگریس سے ملے یا ان پاکستانی امریکنز سے جو عمران خان کی وجہ سے پیدا خلیج پاٹ سکیں اور عمران خان کی گڈی پھر سے چڑھا سکیں۔
ذاتی تشہیر کے بجائے امریکا میں پاکستان کے لیے لابنگ کی ضرورت اس لیےبھی ہے کیونکہ ملک خصوصاً سندھ میں لاکھوں سیلاب زدگان سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں،ان کی حالت زار پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل دنیا کا ضمیر جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر تھک گئے مگر پاکستان کو مطلوبہ امداد نہیں مل پارہی۔
عمران خان کو امریکا میں پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز احمد سے سبق سیکھنا چاہیے جنہوں نے اپنی تنظیم کے پلیٹ فارم سے لابنگ فرم کی خدمات لی ہیں تاکہ امریکی بجٹ میں سیلاب زدگان کے لیے امدادی رقم مختص کی جائے۔
اے پی پیک کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز احمد اور تنظیم کے دیگر اراکین امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے ڈیموکریٹ چیئرمین باب میننڈیز،با اثر ری پبلکن سینیٹر لنزی گراہم ، اور سینیٹر کوری بُوکر سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ موجودہ کانگریس اپنا دور پورا کرنے سے پہلے سیلاب زدگان کے لیے کچھ تو کرے۔
ایک ایسے وقت میں جب سیلاب متاثرین پر اضافی اور غیرمعمولی اخراجات کے سبب پاکستان کے پاس قرضوں کی واپسی کی رقم نکالنا مشکل ہے، پاکستانی امریکنز کی یہ تنظیم کوشش میں ہے کہ سرکردہ ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس صدر بائیڈن کو خط لکھ کر ان پر زور دیں کہ پاکستان کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے کا عمل شروع کیا جائے تاکہ معاشی چیلنجز کے گرداب میں پھنسے پاکستان کی برآمدات بہتر ہوسکیں۔
ایک جانب امریکن پاکستانی اپنے وطن کے لیے اس قدر فکر مند تو دوسری جانب ملک کی سب سے بڑی اور مقبول پارٹی کہلانے والی پی ٹی آئی کے چیئرمین ملکی سلامتی کے واحد مستحکم ادارے کی جڑ کاٹنے پر تلے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ اس نازک وقت میں جسے آپ قاتل کہہ رہے ہیں، اس کے ادارے پر پڑوسی ہی نہیں دوست دشمن سب کیسے انگلیاں اٹھائیں گے۔
یقینی طورپر کہا جاسکتا ہےکہ جیسے امریکا کے خلاف بیانیہ سیاست چمکانے کے لیے تھا، ویسے ہی قاتلانہ حملے میں لوگوں کو ملوث کہہ کر بھی عمران خان سیاست کر رہے ہیں۔
شاید قوم کو کچھ ماہ انتظار کرنا پڑے پھر عمران خان قاتلانہ حملے پر بھی کہیں گے 'جہاں تک میرا تعلق ہے، یہ معاملہ ختم ہوچکا، میں نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے'۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔