بلاگ
Time 25 نومبر ، 2022

کاٹسو نوری اشیدا، ثقافت کی علامت جاپانی سفارتکار

فوٹو: مصنف نسیم حیدر
فوٹو: مصنف نسیم حیدر

لفظ سفارت کار ذہن میں آئے تو ایک ایسی شخصیت کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے جو سفارت کاری کا مرد میداں ہو،عالمی امور پر دسترس ہو، پڑھنے،لکھنے کا شغف ہو،خوش لباس، آرٹ کا ذوق اور کلاسیکی موسیقی سے کسی حد تک لگاؤ ہو۔

کراچی میں جاپان کے ڈپٹی قونصل جنرل کی حیثیت سے چار سال خدمات انجام دینے والے کاٹسنوری اشیدا میں یہ سب کچھ تھا مگران خصوصیات کے علاوہ بھی ان کی شخصیت اس قدر ہمہ جہت تھی کہ وہ اس شہر کے باسیوں اور سفارتی حلقوں کو مدتوں یاد رہیں گے۔

اشیدا نوری ایک ایسے دور میں یہاں ڈپٹی تعینات ہوئے جب توشی کازو ایسو مورا جیسی قدر آور شخصیت یہاں قونصل جنرل تھے،وہ ایک ایسے منجھے ہوئے سفارت کار تھے جو کراچی ہی نہیں پاکستان بھر کے سیاستدانوں ،بزنس کمیونٹی اور سماجی شخصیات کی ہر نبض سے واقف تھے اور طویل ترین عرصے تک یہاں سفارت کار کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے سبب ہر طبقے میں یکسر مقبول تھے۔ ایسی شخصیت کی موجودگی میں اپنی شناخت پیدا کرنا اشیدا نوری ہی کا کام تھا۔

اشیدا نوری فنون میں چونکہ بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے، اس لیے وہ پاکستان اور جاپان سے متعلق اکثر تقاریب کے روح رواں رہے، مارشل آرٹ کا عملی مظاہرہ ہو،آلات موسیقی بجانے کا موقع ہو یا گلوکاری کے جوہر دکھانے کا لمحہ اشیدا نوری اسٹیج پر آتے تو سامعین جان لیتے کہ اب اردو، پنجابی، پشتو ہر گانا سننے کو ملےگا اور ہر وہ دھن چھیڑی جائے گی جسے ہر عمر کے افراد پسند کریں گے۔ کُوکنگ بھی ان کے مشغلوں میں سے ایک تھا۔

فوٹو: مصنف نسیم حیدر
فوٹو: مصنف نسیم حیدر

اشیدا نوری سے میری پہلی ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی جب ایک مچھلی فروش کی لاپروائی ان کے کڑے امتحان کا باعث بنی ہوئی تھی۔ جاپان قونصلیٹ کراچی میں ٹُونا کٹنگ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ٹُونا ایک خاص قسم کی مچھلی ہوتی ہے جو جاپان کی مقبول فوڈ ڈش سُوشی بنانے میں استعمال کی جاتی ہے۔ سُوشی بنانے کیلئے خاص قسم کے چاول استعمال کیے جاتے ہیں جنہیں اُبال کر مختلف اشکال میں رکھ لیا جاتا ہے اور انہیں تازہ ٹُونا مچھلی کی باریک تہوں میں نفاست سے لپیٹ کر سُوس اور وسابی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

مچھلی فروش تازہ کے بجائے فروزن یعنی ایسی ٹُونا مچھلی لے آیا تھا جو برف کی سِل بنی ہوئی تھی۔ تقریب شروع ہونے کا وقت آن پہنچاتھا اور مچھلی کی باریک تہیں بنانا تو دور کی بات اسے چاقو سے کاٹنا تک ناممکن تھا۔ بھرے مجمعے میں اشیدا کو یہ برف کی سِل توڑنا نہیں ایسے کاٹنا تھی جیسے صراف کو کپڑے کے تھان سے پارچہ بنانا ہو تو وہ قینجی سے ایک ہی لمحے میں کاٹ ڈالتا ہے۔

اشیدا نے دو ملازمین سے کہا کہ وہ مچھلی کو ہال کے ساتھ موجود باغ میں لےجائیں، گھاس اوردرختوں کو پانی دینے والا پائپ منگوا کر تختے پر رکھی مچھلی کے منہ میں ڈ لوایا اور موٹر آن کروا دی۔ مچھلی کے گلپھڑوں سے پانی کے فوارے نکل پڑے اور یوں پندرہ بیس منٹ تک مچھلی کے اوپر اورپیٹ میں پانی بھر کرکسی حد تک برف کو پگھلانے کی کوشش کی گئی۔ اشیدا جو مسلسل گھڑی دیکھ رہے تھے، اچانک بولے، بس اب اس مچھلی کو اندر رکھ دیں، میں نے سفارتی طور پر مروج اصطلاح میں معنی خیز انداز سے پوچھا کیا برف پگھل گئی؟ اشیدا مسکرا کر بولے برف پھگلنے کے آثار پیدا ہونا بھی نیک شگون سمجھیے۔

اشیدا نے تقریب کے شرکا کو بتایا کہ مچھلی فروش نے انہیں کس امتحان میں ڈالا ہے مگر ساتھ ہی ہتھوڑا لہرا کر بتایا کہ گھی اگر سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انہیں انگلی ٹیڑھی کرنا آتی ہے اور ہوا بھی ایسا ہی، اشیدا نے چاقو اور ہتھوڑے کی مدد سے منٹوں میں مچھلی نفاست سے کاٹی اورسُوشی بنا کر پیش کر دی۔

سُوشی بنانے میں اشیدا اس قدر ماہر تھے کہ ان کے سابق باس ایسومورا صاحب کی اہلیہ بھی اشیدا صاحب کی صلاحیتوں کی معترف تھیں۔ اشیدا صاحب نے گھر میں ایک کمرہ محض سوشی تقریبات کیلئے مختص کیا ہوا تھا جہاں میز پر مختلف اقسام کے چاقو اور ایک جانب سُوس سجے رہتے۔یہاں وہ اپنے دوستوں اور احباب کی تواضع کیا کرتے تھے۔

گھر کا ڈرائینگ روم جہاں جاپانی ثقافت کی علامت چیزوں سے سجا تھا وہیں اس طرح ڈیزائن بھی کیا گیا تھا کہ سب کی توجہ ایک کارنر پر ہو جہاں ان کا پسندیدہ پیانو،گٹار اور ڈرم رکھے رہتے۔ 

فوٹو: مصنف نسیم حیدر
فوٹو: مصنف نسیم حیدر

شاید ہی کوئی ایسا مہمان آیا ہو جس نے فرمائش کر کے ان سے گیت نہ سُنے ہوں یا پیانو اور گٹار پر دھنیں بکھیرنے کی درخواست نہ کی ہو۔ جاپانی ودائیکوڈرم بجانے میں تو انہیں کچھ خاص مہارت تھی۔وہ ڈوب کر گاتے اور غرق ہو کر آلات موسیقی بجاتے۔یہی وجہ ہے کہ تقریبات میں دل دل پاکستان، تو کی جانے پیار میرا، او رے پیا، میرے رشک قمر جیسے سدا بہار گیت لوگ ان سے فرمائش کر کے سنتے۔

کاٹسونوری اشیدا اگست 1993 میں اسلام آباد بطور تھرڈ سیکرٹری آئے تھے۔ انہوں نے یہاں میوزک بینڈ بھی قائم کیا تھا۔ طنز و مزاح کی پھڑکتی حس رکھنے والے اشیدا نے پہلے اس بینڈ کا نام ایمرجنسی رکھا تھا کیونکہ اس دور میں پرویزمشرف صاحب نے ملک میں ایمرجنسی لگائی تھی،کورونا وبا آئی تو اشیدا نے بینڈ کا نام بدل کر ایس اوپی کردیا کیونکہ کورونا دور میں یہی الفاظ ہر شخص کے لب پر تھے۔ بینڈ کی خاص بات یہ تھی کہ برطانیہ کے ڈپٹی ہائی کمیشن میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن مارٹن ڈاؤسن بھی اس میں ڈرمر کے طورپر پرفارم کرچکے ہیں۔

جاپان میں سومورائی کو تنظیم، احترام، جرات، تحفظ ، اعلیٰ اقدار اور کردار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔سومورائی تلوار سے جنگ لڑنے کے ماہر ترین افراد ہوا کرتے تھے، اشیدا نے بھی شاید مارشل آرٹ کا شوق کسی سوموارائی ہی سے متاثر ہوکر اپنایا تھا۔ وہ جاپان کا روایتی لباس زیب تن کرتے تو تلوار کی جگہ 'اوچیوا' اڑستے اور کہتے اب زمانہ بدل گیا ہے۔شمشیر زنی کی جگہ اب بانسوں نے لے لی ہے، اس لیے شمشیر زن کے ساتھ پریکٹس کرنا ہو تواشیدا بانس ہی سے گزارا کرتے۔

جہاں تک عالمی امور پر دسترس تک کا تعلق تھا، اشیدا کاٹسونوری ان سفارت کاروں میں سے ایک ہیں جو دوٹوک نکتہ نظر رکھتے ہیں، وہ 1992 سے اب تک پاکستان، افغانستان، سری لنکا اور آسٹریلیا میں تعینات رہے ہیں مگر عالمی امور پرایسی نگاہ ہے کہ ذہن کو جلا مل جاتی ہے۔ وہ پاکستان سے وطن روانہ ہوگئے ہیں مگر ماضی میں ان کی پوسٹنگز کی بنیاد پر یقین سے کہا جاسکتا ہےکہ جلد یا بدیر قسمت انہیں یہاں پھر لائےگی۔ کاٹسونوری اشیدا سفر بخیر۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔