نورمقدم قتل کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ کا واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنےکا فیصلہ

فوٹو: جیو نیوز/ فائل
فوٹو: جیو نیوز/ فائل

نورمقدم قتل کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے واقعے کی سی سی ٹی وی ویڈیو دیکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل بینچ نے نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر کےگھریلو ملازم چوکیدار افتخار کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

 وکیل نے کہا کہ افتخار کی وقوعہ کی جگہ پر موجودگی ثابت ہے لیکن اس کا اس معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں، وہ تو ملازم ہے جس کا کام ہی دروازہ کھولنا اور بند کرنا ہے۔

عدالت نےکہا کہ سی سی ٹی وی کیمرے میں چوکیدارکا کردار آیا ہے ؟ جب نور مقدم نے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی تو افتخار نے کیوں روکا ؟ گھریلو ملازم ہونے کا مطلب یہ نہیں مالک کوئی غیر قانونی کام کہےگا تو وہ کرلےگا، ظاہر جعفر جب زبردستی نور مقدم کو گھر کے اندر لےگیا تو افتخار گیٹ پر موجود تھا، ٹرائل کورٹ کی فائنڈنگ ڈی وی آر کی بنیاد پر ہیں۔

وکیل نے کہا کہ وہ 20 ہزار ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں ہمارے معاشرے میں وہ مالک کے دوست کو ٹچ بھی نہیں کرسکتے۔

عدالت نےکہا کہ سی سی ٹی وی کے مطابق اگر نور مقدم جانا چاہ رہی ہو اور چوکیدار نے روکا تو کیا یہ اغوا نہیں ہے؟ کورٹ کی فائنڈنگ ہے کہ چوکیدار نے گیٹ بند کیا اور بیسمنٹ میں چلا گیا۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ ججمنٹ میں الفاظ لکھے ہیں کہ نور مقدم کہتی رہی کہ مجھے جانے دو مگر چوکیدار نے گیٹ نہیں کھولا۔

 وکیل نے کہا میں نے وہ پورشن نہیں دیکھا، فوٹیج میں آواز بھی نہیں تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر لڑکی باہر جانے کا کہہ رہی ہے اور اسے جانے نہ دیا جائے تو کیا وہ اغوا نہیں؟ کیا کوئی گیٹ کیپر گھر آئے مہمان کو باہر جانے سے روک کر کہہ سکتا ہے کہ میں باہر نہیں جانے دوں گا۔

وکیل نے کہا نور مقدم اپنی مرضی سےگھر آئی تھی، عدالت نے کہا ضروری نہیں کوئی مرضی سے آئے تو وہ اغوا نہیں ہوسکتا، اغوا اس وقت شروع ہو جاتا ہے جب کسی کو غیر قانونی طور پر وہاں سے نکلنے سے روک دیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ظاہر جعفر کے وکیل نےکہا کہ نور مقدم کا موبائل پولیس نے توڑا، ہو سکتا ہے کہ وہ جمپ کے دوران ٹوٹ گیا ہو، جب انسان panic کی صورتحال میں ہوتا ہے تو وہ اس وقت بعض اوقات نمبر بھی ڈائل نہیں کر پاتا، ابھی آپ کہیں گے کہ وہ چھلانگ مار کر کسی دوسرے کے گھر میں چلی جاتی۔

 وکیل نےکہا کہ لڑکی کی والدہ سے فون پر بات ہوئی تو اس نے کوئی بات انہیں کیوں نہیں بتائی؟ 

چیف جسٹس نے کہا کہ لڑکی نے والدہ سے فون پر بات صبح کی اور یہ واقعہ شام کو ہوا۔

 جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیےکہ اگر سب کچھ درست تھا تو اسے فرسٹ فلور سے جمپ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کسی پر حملے یا قتل کا ارادہ فوری بن سکتا ہے، ضروری نہیں کہ اس کی منصوبہ بندی ہی کی گئی ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی ڈی وی آر فراہم کرنے کے لیے آرڈر پاس کریں گے، مزید سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔

مزید خبریں :