21 فروری ، 2022
نور مقدم قتل کیس میں شریک ملزمان کے بیانات کو مدعی وکیل نے مرکزی ملزم ظاہرجعفر کے قاتل ہونےکا ثبوت قرار دےدیا۔
نور مقدم قتل کیس کی سماعت ایڈیشنل اینڈ سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں ہوئی، ملزمان کے وکلا نے حتمی دلائل مکمل کرلیے۔
ملزم ظاہر جعفر کے والدین کے وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ موت کا وقت ایف آئی آر میں درج نہیں، نہ ہی گواہان کے بیان سے معلوم ہوتا ہےکہ کب واقعہ ہوا، کیس میں پراسیکیوشن کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے، چارگھنٹےکا گھپلا ہے جو پولیس کی جانب سے بنایا گیا،کیس میں کوئی ایسا فقرہ نہیں کہا گیا جس میں کیس ہمارے ساتھ جوڑا جاسکے۔
وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ ہم پر ثبوتوں کو جائے وقوعہ سے ہٹانے کا الزام لگایا گیا ہے جب کہ کرائم سین انچارج کی جانب سے ثبوت مٹانےکی کوشش کا کوئی بیان نہیں آیا، مقتولہ کے موبائل یا واٹس ایپ کا ڈیٹا بھی نہیں لیا گیا، میرے موکل اگر واقعے میں ملوث ہوتے تو پہلی فلائٹ سےکراچی سے اسلام آباد کیوں آتے؟ عصمت آدم جی اور ذاکر جعفر کے خلاف کوئی ثبوت نہیں، نہ دونوں پر کوئی مقدمہ بنتا ہے۔
نور مقدم قتل کیس میں تمام ملزمان کے وکلا نے حتمی دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد مدعی وکیل شاہ خاور نے عدالت میں دلائل دینا شروع کردیے۔
نور مقدم قتل کیس کے مدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے دلائل میں کہا کہ مرکزی ملزم قتل کا اعتراف کر چکا ہے، تھراپی ورکس نے بھی اعتراف کیا کہ جب انہیں وقوعہ پر جانے کا کہا گیا تو وہاں قتل ہو چکا تھا۔
وکیل شاہ خاور کام کہنا تھا کہ ملزم کا فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ بھی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ساتھ میچ ہوا، سی سی ٹی وی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی ڈرگ پارٹی نہیں رکھی گئی تھی، غیرت کے نام پر قتل کرنے والی کہانی بھی من گھڑت ہے۔
مدعی وکیل نےکہا کہ اس سارے معاملے میں مرکزی ملزم کے والدین کارویہ غیرذمہ دارانہ رہا، اگروہ ذمہ داری دکھاتےتو قتل ہونے سے پہلے اسلام آباد پہنچتے، سی سی ٹی وی ویڈیو سے ظاہر ہےکہ نورمقدم کو چوکیدار افتخار نےگھر سے نکلنے نہیں دیا، اگرچوکیدار افتخار نور مقدم کو باہر جانے دیتا تو قتل سے بچایا جاسکتا تھا، مقتولہ نے جان بچانےکے لیے زخمی ہونےکی پرواہ نہیں کی، ملزم ظاہر جعفرنے مقتولہ نور مقدم کو پکڑا اور پھر قتل کردیا،شریک ملزم کے بیان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرکزی ملزم ظاہرجعفرکے قتل کے عمل کومان رہے ہیں۔
عدالت نے کیس کی مزیدسماعت منگل تک ملتوی کردی۔