Time 11 دسمبر ، 2022
بلاگ

چین کی ترقی کا راز

ممالک کے درمیان تنازعات میں پڑنے کے بجائے تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا سے پسماندگی کا خاتمہ کیا جاسکے، قونصل جنرل چین لی بی جیان/ فائل فوٹو
ممالک کے درمیان تنازعات میں پڑنے کے بجائے تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا سے پسماندگی کا خاتمہ کیا جاسکے، قونصل جنرل چین لی بی جیان/ فائل فوٹو

کراچی میں چین کے قونصل جنرل لی بی جیان نے کہا ہے کہ بیجنگ کے سیاسی اوراقتصادی نظام کیخلاف پراپیگنڈہ کرنے والے یہ حقیقت جھٹلا نہیں سکتے کہ ایک ارب چالیس کروڑ آبادی والا چین اب دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔

فرینڈز آف چائنا کے عنوان سے کراچی میں منعقد تقریب سے خطاب لی بی جیاں نے یہ بھی کہا کہ چین نے ترقی کے منازل کسی ملک پر حملہ کرکے حاصل نہیں کیے، یہ سب شب و روز محنت ،قابل ترین افراد کے چناؤ، عوام دوست پالیسیوں اور میرٹ پر عمل کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ کے لحاظ سے دیکھیں تو امریکا کا جی ڈی پی 20اعشاریہ 89 کھرب جبکہ آبادی کے لحاظ سے کئی گنا زیادہ ہونے کے باوجود چین کا جی ڈی پی 14 اعشاریہ 72 کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور عالمی بنک کے مطابق جی ڈی پی کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک جاپان ہے جس کا جی ڈی پی چین سے تقریباً ایک تہائی کم یعنی5کھرب ڈالر ہے۔

قونصل جنرل لی بی جیان نے اپنے خطاب میں مزیدکہا کہ پچھلے چند عشروں میں چین نے دس کروڑ شہریوں یعنی امریکا کی ایک تہائی آبادی کے برابر افراد کو انتہائی غربت سے باہر نکالنے کا کرشمہ بھی کیا ہے۔

چین کے سیاسی نظام کو بعض ممالک کی جانب سے آمریت کہنے کو پراپیگنڈہ قرار دیتےہوئے لی بی جیاں نے کہا کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا دیگر 8سیاسی جماعتوں کی مدد سے ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے، جہاں تک چین کی پولیٹبرو کا تعلق ہے تو اس میں شامل شخصیات گراس روٹ لیول سے تعلق رکھتی ہیں اور اس اعلیٰ مقام تک پہنچنے سے پہلے وہ قصبے، شہروں اور صوبوں میں برسوں خدمات انجام دے چکے ہوتے ہیں۔ 

فوٹو جیو نیوز
فوٹو جیو نیوز

لی بی جیاں نے کہا کہ ممالک کے درمیان تنازعات میں پڑنے کے بجائے تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا سے پسماندگی کا خاتمہ کیا جاسکے اور ایک ایسی پالیسی اپنائی جانی چاہیے جس میں سب کی جیت ہو، پراپیگنڈہ کے بجائے زمینی حقائق سامنے لائے جائیں تاکہ واضح ہوسکے کہ امن اور ترقی کیلئے اصل کردار کون ادا کررہا ہے۔

اس موقع پر چین میں پاکستان کے سابق سفارتکار سید حسن جاوید نے کہا کہ 1980 کی دہائی میں جب وہ پہلی بار چین میں تعینات کیے گئے تو انہیں مشورہ دیا گیا تھاکہ اچھا لباس اور ضرورت کی تمام تر اشیا پاکستان سے لے کر جائیں کیونکہ غربت کی وجہ سے پُرتعیش چیزوں کا چین میں فقدان ہے۔

80 کی دہائی کے کراچی اور شنگھائی کاموازنہ کرتے ہوئے سید حسن جاوید نے کہا کہ دونوں شہروں میں اس وقت فائیو اسٹارہوٹلوں کی تعداد یکساں یعنی صرف پانچ تھی، چار دہائیاں گزرنے کے باوجود کراچی میں آج بھی پانچ ہی فائیواسٹار ہوٹل ہیں جبکہ شنگھائی میں ایسے ہوٹلوں کی تعداد تین ہزار ہوچکی ہے۔

حسن جاوید نے کہا کہ چین نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے مندوب بھیج کران ممالک کی ترقی کا راز جانا تھا اور پھر کمیونسٹ پارٹی نے ایسا ماڈل تیار کیا کہ جس کی بنیاد عوام کی پسماندگی دور کرکے انکا معیار زندگی بہتربنانے پر رکھی، آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم چین کی ترقی سے سبق حاصل کریں۔

فوٹو جیو نیوز
فوٹو جیو نیوز

پاک چین تعلقات کا ذکر کرتےہوئے مقررین نے کہا کہ جب ہنری کیسنجر کے زریعے چین اور امریکا کا 1972میں پاکستان نے تعلق قائم کرنے میں کردار ادا کیا تو چئیرمین ماو نے صدر نکسن پر واضح کیا تھا کہ اس پُل یعنی پاکستان کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، برسوں بعد چینی وزیراعظم اور امریکی صدر بل کلنٹن کی ملاقات ہوئی تواس وقت بھی امریکی صدر پر پاکستان کی اہمیت اجاگر کی گئی تھی۔

پاک چین اقتصادی تعلقات کا حوالہ دیتےہوئے مقررین نے کہا کہ جب پاکستان لوڈشیڈنگ کا بدترین عذاب جھیل رہا تھا ، صنعتکار بنگلادیش سمیت خطے کے دیگر ممالک میں صنعتیں منتقل کرنے پر مجبور ہوگئے تھے تو کسی مغربی ملک نے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کی، چین آگے بڑھا اور اندھیرے اجالوں میں بدلے۔

مقررین نے سی پیک کو پاکستان کی اقتصادی لائف لائن قرار دیا اور کہا کہ معاشی ترقی کا یہ سفرپاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہونے دیا جانا چاہیے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔