15 دسمبر ، 2022
افغانستان میں طالبان حکومت کے برسر اقتدار آنے پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید نے کابل کا اچانک دورہ کیا تھا، یہ تو پتا نہیں کہ انہیں دورے کی دعوت کس نے دی تھی تاہم ایک خاتون صحافی کے بظاہر غیر متوقع سوال پر وہ برجستہ بولے تھے کہ 'فکرنہ کریں، سب ٹھیک ہوجائےگا'۔
افغانستان پر طالبان کے اقتدار کو تقریباً ڈیڑھ برس گزر چکا ہے مگر سب ٹھیک ہونا تو دور کی بات،بہت کچھ خراب ہوگیا ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ فارپیس اسٹیڈیز کے مطابق افغانستان پر طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے اگلے ایک برس کے دوران پاکستان میں حملوں کی شرح 51 فیصد تک بڑھی ہے۔حالیہ واقعات اپنی جگہ، صرف 15 اگست 2021 سے 14 اگست 2022 کے دوران پاکستان میں 250 حملے کیے گئے ہیں جن میں 433 افراد جاں بحق اور 719 زخمی ہوئے ہیں، یعنی نہ صرف حملے بڑھے ہیں بلکہ اموات اور زخمیوں کی تعداد میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
ان حملوں کا سب سے بڑا ہدف خیبرپختونخوا اور بلوچستان ہیں تاہم اسلام آباد، پنجاب اور سندھ بھی غیر محفوظ نہیں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی خوش قسمتی کہیں کہ وہ پچھلے سال کی طرح اس بار بھی شر سے محفوظ رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا چمن پر افغان فورسز کی حالیہ فائرنگ سے 6 شہریوں کی شہادت کے بعد وزیراعظم کی جانب سے افغان حکومت کو انتباہ کافی ہے؟
صورتحال مزید خراب ہونے کے خدشات اس لیے بھی ہیں کیونکہ حالیہ چند ماہ میں افغانستان میں ان ممالک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جنہوں نے طالبان کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کی تھی۔
ستمبر میں روسی سفارتخانے کے داخلی حصے پر خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں قونصلر سیکشن کے دو روسی اہلکار مارے گئے تھے۔ اس ماہ کے آغاز پر افغان دارالحکومت ہی میں پاکستان کے ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں ان کا محافظ شدید زخمی ہوا تھا۔
اب کابل میں اس عمارت کے داخلی حصے پر خودکش حملہ کیا گیا ہے جو چینی شہریوں کے زیر استعمال تھی۔ افغان حکام کی بروقت کارروائی سے دیگر تین حملہ آور مارے نہ جاتے تو خدشہ تھا کہ کئی قیمتی جانیں ضائع ہوتیں۔
خطے کے تین اہم ممالک پر یہ حملے اور ان کی ذمہ داری داعش کی جانب سے قبول کیا جانا معنی خیز ہے۔
طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد عام تصور یہی تھا کہ نئی افغان حکومت القاعدہ، داعش اور بلوچ لبریشن آرمی سمیت کسی بھی پُرتشدد تنظیم کو اپنی سرزمین پڑوسی ممالک کے خلاف کارروائیوں کیلئے استعمال کرنے نہیں دے گی۔ یہ خام خیالی اُس وقت دور ہوگئی تھی جب افغانستان پر طالبان کے اقتدار کو پانچ روز ہی گزرے تھے کہ گوادر میں چینی شہریوں پر خودکش حملہ کر دیا گیا اورپھر اپریل میں چینی اساتذہ کراچی یونیورسٹی میں نشانہ بنائے گئے۔
کیا ان حملوں کا نتیجہ یہ اخذ کیا جانا چاہیے کہ طالبان چونکہ پاکستان ،روس اور چین کے مفادات کا تحفظ کرنے میں بظاہر ناکام ہوگئے ہیں تو ان سے ہاتھ کھینچ لیا جائے؟
یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ طالبان کو بے یارو مددگار چھوڑنے کا مطلب افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ ترین پناہ گاہ میں تبدیل کرنے کے مترادف ہوگا۔
طالبان نے اقتدار لاکھ بزور طاقت حاصل کیا ہو، چند عشروں نہ سہی کئی برسوں تک افغانستان میں ان کا کوئی ایک متبادل ابھرنا ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ طالبان سے ہاتھ کھینچنا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے جیسا ہوگا۔
جائزہ اس بات کا لیا جانا چاہیے کہ طالبان اپنے وعدوں میں ناکام کیوں ہو رہے ہیں؟
اس میں شک نہیں کہ اقتدار پر قبضہ کے وقت طالبان کو توقع تھی کہ امریکا سے امن معاہدے کی وجہ سے عالمی سطح پر ان کی حکومت اس بار تسلیم کرلی جائے گی اور وہ ملک کو اقتصادی طورپر بہتر کرنے کے قابل ہوجائیں گے تاہم طالبان کو ماضی سے کہیں زیادہ تنہائی کا سامنا ہوا۔ نوے کی دہائی کے برعکس اس بار طالبان میں تفریق بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک کے لیے افغانستان سے کہیں زیادہ یوکرین اہم ہے،بالکل اُسی طرح جیسے افغانستان پر حملے کے چند ہی برس بعد عراق اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ طالبان رہی سہی کسر سخت گیر قوانین ملک پرنافذ کر کے پوری کر رہے ہیں کیونکہ یہ اقدامات مغربی ممالک کو طالبان سے فاصلے بڑھانے کی ٹھوس بنیاد فراہم کر رہے ہیں۔
اقتصادی طور پر مفلوج ، تفریق کا شکار اور تنہائی کا سامنا کرنے والا ایسا افغانستان سب سے زیادہ بھارت کے مفاد میں ہے۔جو اسے مزموم مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کر رہا ہے، تو مسئلے کا حل کس کے پاس ہے اور افغانستان میں سب ٹھیک ہوگا کب؟
ڈیڑھ برس میں یہ تو طے ہوگیا ہےکہ طالبان کی اقتصادی امداد کیلئے مغرب کو قائل کرنا پاکستان کے بس کی بات نہیں، چین، روس اور ایران کے ساتھ مل کر طالبان کو اقتصادی طور پر مضبوط کرنا بھی آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں خطے کو افغانستان کی صورتحال پر فکر مند رہنا پڑے گا کیونکہ یہاں 'سب اچھا ہونے' سے پہلے بہت خرابی باقی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔