19 دسمبر ، 2022
امریکا کے سابق وزیرخارجہ ہنری کیسنجر نے یوکرین تنازعے کو حل کرنے کے لیے امن فارمولہ پیش کیا ہے لیکن کئی وجوہات کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ اسے قبول کرنا روس کےلیے ممکن نہیں ہوگا اور نتیجہ یہ کہ جنگ جاری رہنے کے خدشات باقی رہیں گے۔
ہنری کیسنجر نے اپنے تئیں جو امن فارمولہ پیش کیا ہے اسکی جذیات پرنظر ڈالنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ امن کی یہ فاختہ اسی وقت کیوں اڑائی گئی ہے؟
یقیناًہنری کیسنجر روس اور مغرب کو کرسمس یا سال نو پر امن کا تحفہ نہیں دے رہے بلکہ یہ بات ایسے وقت کہی گئی ہےجب برطانیہ اور یورپ کو خون جماتی سردی کا سامنا ہے اورتوانائی کی قیمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ متوسط طبقے کے افراد بھی گھروں میں ہیٹر چلانے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور ہیں کہ بل کیسے بھریں گے۔
یہی نہیں امریکا کی جانب سے شرح سود میں مسلسل اضافے کےاثرات پوری دنیا پرپڑرہےہیں اور ایک ایسے مغرب میں جہاں گھرکا پورا نظام کریڈٹ کارڈ پر چلتا ہو، لوگوں کو سود کی ادائیگی میں اس قدر دشواری ہے کہ نچلے طبقے کو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں،ایسے میں گھروں کوگرم رکھنے سے پہلے پیٹ کا جہنم بھرنا ہی مصیبت ہے۔
یوکرین کو مسلح کرنیوالے مغربی ممالک کیخلاف روس براہ راست جنگ تو چھیڑ نہیں سکتا۔ ایسے میں روس کیلیے یہی سردیاں مغرب کیخلاف سب سے موثر ہتھیارہیں۔ یوکرین تنازعہ شروع ہونےپر اسی لیے روس کےسابق صدر اور سابق وزیراعظم دیمتری میدودیف نے خبردار کیا تھاکہ اگر روس کے تیل پر قیمت کی حد لگائی گئی تو یورپ کو پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی بند کردی جائے گی۔ روس نے کسی حد تک ایسا کیا بھی ہے اور یورپ کی بجائے چین اوربھارت کو ترجیحی بنیادوں پر یہ مصنوعات بیچنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔
روس منتظر ہے کہ مہنگائی اور سردی کے مارے مغربی شہری اپنی حکومتوں کیخلاف نکلیں اور یوکرین تنازعہ ختم کرنے کے لیے آواز بلند کریں۔یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی مغربی ملک میں بڑی تعداد میں عوام روس کی حمایت میں تاحال کھڑے نہیں ہوئے۔
اب زرا ہنری کیسنجر کے امن فارمولے کو کھنگالتے ہیں۔
امریکا کی قومی سلامتی کے سابق مشیر کے نزدیک یوکرین کو نیٹو کارکن بنا دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اسکی دلیل یہ دی ہے کہ فن لینڈ اور سوئیڈن بھی تو نیٹو کی رکنیت حاصل کرچکے ۔
اس میں شک نہیں کہ یوکرین کا نیوٹرل رہنا اب ممکن نہیں تاہم روس کا جو قدیمی تعلق یوکرین سے ہے وہ فن لینڈ اور سوئیڈن کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہرا ہے۔ روس نے یوکرین پر چڑھائی کی بھی اسی لیے ہے کہ اسے خدشہ تھا کہ کیف نیٹو اور یورپی یونین کا رکن بن کر اسکا ازلی دشمن نہ بن جائے۔
یوکرین کے چار علاقوں ڈونیئسک، لوگانسک، خیرسون اور زیپوریزیا ہتھیانے کے پیچھے بھی یہی محرکات تھے۔ کچھ عرصہ پہلے روس نے یوکرین کا ایک اور علاقہ کرایمیا بھی انہی خدشات کی بنا پر واپس لیا تھا۔
ہنری کیسنجر نے کہا ہے کہ ان علاقوں کے مستقبل پر بات جنگ بندی کے بعد کی جانی چاہیئے اور یہاں حق خود ارادیت پر عالمی نگرانی میں ریفرنڈم کرایا جائے۔
ہنری کیسنجر کی تجویز بظاہر پُرکشش سہی مگر سوال یہ ہے کہ آیا روس اس ریفرنڈم پر تیار ہوگا؟ نئے ریفرنڈم کا مطلب پرانے ریفرنڈم کو ڈھونگ تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا اور یہ بھی کہ نیا ریفرنڈم اگر عالمی نگرانی میں ہوا تو اسکے نتائج کیا نیا تنازعہ پیدا نہیں کریں گے؟
ماسکو کے نزدیک ایک آنکھ کی جنبش سے تقریبا پورے یورپ نے یوکرین جنگ پر امریکا کا ساتھ دیا ہے تو ایسے میں ثالثی کرےگا کون اور غیرجانبدار مبصر کون ہوں گے؟
ہنری کیسنجر اس اہم سوال پر خاموش ہیں کہ جنگ کی ذمہ داری کس پرعائد کی جائے گی۔ تاہم یہ معاملہ یوکرین کے صدر زیلنسکی طے کرچکے ہیں۔ زیلنسکی کو روس مغرب کا پٹھو کہتا ہے تاہم ہنری کیسنجر یوکرینی صدر کی قائدانہ صلاحیتوں کے اس قدر معترف ہیں کہ انکے نزدیک یہ زیلنسکی ہی ہیں جنہوں نے وسطی یورپ کے نقشےپر پہلی بار یوکرین کو ابھارا ہے۔
پچھلے ہی ماہ صدر زیلنسکی نے امن بات چیت کا آغاز کرنے کیلیے ٹھوس شرائط پیش کی تھیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھاکہ یوکرین کا علاقائی استحکام بحال کیا جائے، نقصانات کا ہرجانہ دیا جائے، ہر جنگی مجرم کو سزا دی جائے اور گارنٹی دی جائے کہ ایسے واقعات دہرائے نہیں جائیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے ڈگری پر دستخط کیے تھے کہ جب تک پیوٹن روس کے صدرہیں، امن مذاکرات نہیں ہوں گے۔
پچھلے چند ماہ میں ماسکوکیف مذاکرات کی جس قدر کوششیں ناکام ہوئی ہیں ان سےیہ واضح ہےکہ صدر زیلنسکی اپنی بات کے پکے ہیں کہ پیوٹن کو ہٹاو تو بات آگے بڑھاؤ۔
ایسے میں اگر ہنری کیسنجر کا امن فارمولہ قابل عمل نہیں تو ان جیسے دانش ور نے اسے پیش ہی کیوں کیا؟ اس بات کا جواب شاید کیسنجر نے یہ کہہ کر خود دیدیا ہےکہ روس کے پاس ہزاروں ایٹمی ہتھیار ہیں اور خدشہ ہے کہ فوجی معاملات کہیں مصنوعی ذہانت کے حامل وہ کمپیوٹرز نہ سنبھال لیں جو خود خطرہ بھانپ کر اہداف کو نشانہ بنانا شروع کرسکتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ آسٹریاکے شہزادے کے قتل کے بعد آگ پر تیل ڈال کر جنگ عظیم اول کا باعث بننے والوں نے تصوربھی نہیں کیا ہوگا کہ وہ خود بھی اسکی لپیٹ میں آئیں گے۔
عین ممکن ہے کہ مصنوعی ذہانت کے آلات جنگ کو بھی کوئی سرا پھرا ایسا سگنل دے ڈالے جو دنیا کو نئی عالمی جنگ میں دھکیل دے۔ کم سےکم اس لیے امریکا اور روس دونوں ہی کو ہنری کیسنجر کی بات نظرانداز نہیں کرنی چاہیے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔