Time 05 جنوری ، 2023
بلاگ

کوئی انہیں سمجھائے!

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

پاکستان میں جلسے، جلوسوں، مظاہروں اور صف آرائی کے لیے  ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں وقت اور تاریخ کے تعین میں سفاک غلطیاں کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ آخر سات دہائیوں میں انہوں نے سیکھا کیا ہے؟ یہ بھی کہ اگر یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے تو خدارا کوئی انہیں سمجھائے۔

کراچی اور حیدر آباد کے متوسط اور نچلے طبقےکی خود کو نمائندہ کہنے والی متحدہ قومی موومنٹ ہی کو لیجیے، اس نے حکومت کے خلاف مظاہروں کے لیے 9 جولائی کی تاریخ رکھی ہے۔

وفاقی کا بینہ کا حصہ رہتے ہوئے متحدہ کے اس اعلان کردہ مظاہرے کا کوئی بھی جواز دیا جائے، عام تاثر یہی ہےکہ گورنر سندھ کی کرشمہ گری کے نتیجے میں ایم کیوایم کے جو دھڑے ٹیسوری چھتری تلے جمع کیے جا رہے ہیں، یہ شہر میں اپنی طاقت کا اظہار چاہتے ہیں، ساتھ ہی شہریوں کے حقوق اور شہرکی حالت زار کا نوحہ کورس میں پڑھ کر اُن الزامات کی گونج دبانا چاہتے ہیں جو یہ ایک عرصے سے ایک دوسرے پر عائدکرتے رہے۔

ایم کیوایم کی بقا، پی ٹی آئی سے انتخابی حلقے واپس لینے اور پیپلزپارٹی کا شہر پر اثر زائل کرنے کے لیے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، پاک سرزمین پارٹی، فاروق ستار اور آفاق احمد گروپ کا انضمام کتنا ہی ضروری کیوں نہ ہو، یہ بات حیران کُن ہے کہ آخر طاقت کا اظہار کرنے کے لیے پرانی روش ہی کیوں اپنائی جارہی ہے اور کیا یہ احتجاج کہیں پھر سے ہڑتالوں کا پیش خیمہ تو نہیں ہوگا؟

احتجاج ہو یا ہڑتال ،غور طلب بات یہ ہے کہ ایم کیوایم نے اپنی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کے خلاف احتجاج کی کال اسی روز دی ہے جب پنجاب میں پی ٹی آئی اور ق لیگ اتحادی حکومت ہی کی ایک اور سرکردہ جماعت ن لیگ کو آڑے ہاتھوں لیں گی۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس پہلے ہی 9 جولائی کو بلایا جا چکا ہے تاکہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی ایوان سے ممکنہ طور پر اعتماد کا ووٹ لیں۔ یقیناً یہ ہنگامہ خیز اجلاس ہوگا کیوں کہ مرکز میں اتحادی حکومت اپنے طور پر ق لیگ کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب میں نیچا دکھانے کی کوشش میں منہ کی کھاچکی ہے۔

افسوس ناک پہلو یہ ہےکہ پنجاب میں ن لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف یہ محاذ آرائی اس روز ہوگی جب جنیوا میں ڈونرز کانفرنس کا انعقادکیا جائےگا، یعنی اس اہم کانفرنس میں جب پاکستان سیلاب زدگان کا مقدمہ پیش کرکے زیادہ سے زیادہ امداد اور بحالی کے امور کے لیے قرض اور سرمایہ کاری پر زور دے گا، ملک میں داخلی سطح پر ایک ہنگامہ برپا ہو رہا ہوگا۔

یہ توایم کیوایم ہی بہتر بتاسکتی ہےکہ اس نے مظاہرے کے لیے 9 جولائی کی تاریخ ہی کیوں رکھی یا ق لیگ کہ اس نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس اسی روز کیوں بلایا تاہم یہ مظاہرہ اس بات کی علامت ٹھہرےگا کہ ایم کیوایم اور ق لیگ کو ان سیلاب متاثرین کے دکھ کی رتی برابر فکر نہیں جو تقریباً 6 ماہ پہلے آئی قدرتی آفت سے تاحال جان نہیں چھڑا پائے۔

پچھلے سال آئے سیلاب سے کم سے کم اٹھارہ سو اموات اور تیس ارب ڈالر کا مالی نقصان ہوا جب کہ چار کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے، فصلیں اس قدر تباہ ہوئیں کہ کراچی ہو یا لاہور ہر شہر میں اجناس کے ریٹ آسمان پر جاپہنچے ہیں، ایک لحاظ سے سیلاب نے پورے پاکستان پر کسی نہ کسی صورت اثر ڈالا ہے۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سیلاب کی اصل تباہ کاریاں اندرون سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے چند حصوں میں ہوئیں، اس لیےکہا جاسکتا ہےکہ متاثرین میں زیادہ تر نہ تو ایم کیوایم کے سپورٹر ہیں اور نہ ہی ق لیگ یا پی ٹی آئی کے، نتیجہ یہ کہ اگر عالمی امداد یا قرض کی خطیر رقم ملے بھی تو اس کا زیادہ تر فائدہ ان جماعتوں کو نہیں ہوگا، ہاں یہ ضرور ہےکہ متوقع رقم نہ ملی تو سندھ میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک کمزور ہوسکتا ہے۔

پارٹی مفاد کے برعکس قوم کا وسیع تر مفاد کیا ہوتا ہے یہ تو حکومت اور اپوزیشن بہتر جانتی ہوگی مگر پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے 9 جولائی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے یک آواز ہونے کا دن ہونا چاہیے تاکہ عالمی برادری کا ضمیر جگا کر پاکستان کی امداد یقینی بنائی جائے۔

سیلاب متاثرین کے لیے رقم کا حصول اس لیے بھی چیلنج ہے کیونکہ امریکا، برطانیہ اور یورپ پہلے ہی یوکرین جنگ کے معاشی اثرات بھگت رہے ہیں اور ان کے لیے اپنے عوام کو سستی اشیا کی فراہمی جو ئے شیر لانے سے کم نہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان حالات میں بلاول بھٹو نے حالیہ دور ہ امریکا میں سیلاب متاثرین کا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی مگر اس میں بھی دو رائے نہیں کہ مغربی میڈیا سیلاب زدگان کو کبھی کا بُھلاچکا۔

جو سیاسی چپقلش ملک میں جاری ہے اس میں حریفوں کومنانا تو حکومت کے بس کی بات نہیں، کم سے کم حلیفوں کے تحفظات ضرور دور کیے جانے چاہئیں تاکہ جنیوا کانفرنس کامیاب بنا کر سیلاب متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھا جائے اور تباہ انفرااسٹرکچر کی بحالی ممکن بنائی جاسکے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔