15 فروری ، 2023
امریکی صدارت کا الیکشن لڑنے کیلیے نامزدگی کی دوڑ میں انڈین امریکن ری پبلکن خاتون لیڈر نکی ہیلی بھی شامل ہوگئی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان کے میدان میں آنے کی اہمیت کیا ہے اور الیکشن جیتنے کے امکانات کس قدر ہیں؟ مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں شامل ہونے کااعلان ویلنٹائن ڈے پر کیا۔
ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والی نکی ہیلی نہ صرف ریاست جنوبی کیرولائنا کی پہلی خاتون گورنر رہ چکی ہیں بلکہ اقوام متحدہ میں امریکا کی سفیر کے طورپر بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔
ٹرمپ دور حکومت میں وہ اس حیثیت میں امریکی کابینہ کی پہلی انڈین امریکن رکن تھیں۔ اب گورنر بوبی جندال اور کاملا ہیرس کے بعد وہ تیسری انڈین امریکن بھی بن گئی ہیں جو صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ کا حصہ بنیں۔
یہاں یہ کہنا غیر ضروری نہیں ہوگا کہ اب تک کوئی ایک پاکستانی امریکا کی کسی ریاست کا گورنر بننا تو دور کی بات ایوان نمائندگان یا سینیٹ تک کا رکن نہیں بن سکا۔ صرف ڈاکٹر آصف محمود پہلے پاکستانی امریکن ہیں جنہوں نے مڈٹرم الیکشن میں ایوان کی نشست پر کیلی فورنیا سے ڈیموکریٹ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا مگر ناکام رہے تھے۔
جہاں تک نکی ہیلی کا تعلق ہے ،انکے والد اجیت سنگھ رندھاوا اور والدہ راج کور بھارت کی ریاست مشرقی پنجاب سے امریکا آکر آباد ہوئے تھے۔نکی جنوبی کیرولائنا ہی میں پیداہوئیں اور مائیکل ہیلی سے شادی کے بعد سکھ مذہب چھوڑ کر انہوں نے مسیحیت اختیار کرلی تھی، انکی عمر 51 برس ہے۔
بھارتی پس منظر رکھنے والی نکی ہیلی امیگرینٹس پر ٹرمپ کی لعن طعن ہو ، میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کا متنازعہ منصوبہ یا خواتین کے بارے میں سابق امریکی صدر کا تضحیک آمیز رویہ ، وہ ان سب سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔
خارجہ پالیسی کے لحاظ سے دیکھیں تو نکی ہیلی کےدور میں ٹرمپ پالیسی پرعمل کرتے ہوئے امریکا نے ایران ڈیل سے خود کو علیحدہ کیا تھا۔
نکی ہیلی نےجب 2018میں ٹرمپ انتظامیہ سے علیحدگی اختیارکی تو اُسی وقت سمجھا جارہا تھاکہ وہ صدارتی الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتی ہیں تاہم اب اپنے ویڈیو پیغام میں نکی ہیلی نے تصدیق کی ہے کہ وہ پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے الیکشن لڑیں گی۔ نکی کے نزدیک پارٹی میں اب نئی پود کے آنے کا وقت ہے۔
نکی ہیلی کاکہناہےکہ ری پبلکنز نے 8 میں سے7صدارتی الیکشنز میں پاپولرووٹ حاصل نہیں کیے اور وقت آگیا ہے کہ یہ صورت حال بدلی جائے۔ تاہم پاپولر ووٹ لینا تو دور کی بات نکی ہیلی کو ری پبلکن پارٹی ہی میں زیادہ مقبولیت حاصل نہیں۔ وہاں ان سے بڑے سورما موجود ہیں۔
سروے کے مطابق صدارتی نامزدگی کیلئے نکی ہیلی کو صرف 5 فیصد جبکہ ٹرمپ کو 37 فی صد ری پبلکنز کی حمایت حاصل ہے۔نکی سے کہیں بہتر پوزیشن تو فلوریڈا کےدوسری بار منتخب گورنر ڈی سانتیس کی ہے جو تباہ حال امریکی معیشت کےدور میں بھی اپنی ریاست کو مثالی انداز سے سنبھالے ہوئے ہیں۔
فلوریڈا کے گورنر ڈی سانتیس کے علاوہ سابق نائب صدر مائیک پنس، سینیٹر مارکو روبیو، ٹڈ کروز، مائیک پامپیو ، سینیٹر ٹم اسکاٹ ، کرس سنونو، کرسٹی نویم، گلین یونگکن، لیری ہون اور کرس کرسٹی بھی ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدرارتی نامزدگی لینے کے لیے پرتول رہے ہیں۔
صدارتی الیکشن سے 20 ماہ پہلے نامزدگی کی دوڑ میں شامل نک ہیلی سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ خود کو دوبارہ صدارت کے امیدوار کے طورپر پیش کرچکےہیں۔ ٹرمپ نے 2016 میں جنوبی کیرولائنا کی پرائمری جیتی تھی اور اب بھی انہیں وہاں مقبولیت حاصل ہے ،اسطرح نکی ہیلی کیلئے ٹرمپ کے مقابلے میں اپنے گھر کا دفاع بھی آسان نہیں ہوگا۔
نکی ہیلی اپنا موازنہ برطانیہ کی آئرن لیڈی کی حیثیت سے شناخت رکھنے والی سابق وزیراعظم مارگریٹ تھیچر سے کرتی رہی ہیں تاہم یوٹرن لینے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے زیادہ قریب ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2020 میں جب الزام لگایا تھاکہ جوبائیڈن نے الیکشن نتائج چُرا لیے ہیں تو نکی نے خاموش رہنے میں عافیت جانی تھی۔ چُپ کا روزہ اس وقت توڑا جب ٹرمپ کے حامی دائیں بازو کے انتہاپسند 6 جنوری کو کیپٹل ہل پر چڑھ دوڑے۔ موقع پرستی کہیں یا کچھ اور چند ہی ماہ بعد نکی نے پھر ٹرمپ کی طرفداری شروع کردی تھی۔
نکی ہیلی نے 76 برس کے ٹرمپ پر اب جملہ کستے ہوئے کہا ہے کہ '80برس کی عمر میں آپ کووائٹ ہاوس نہیں جانا چاہیے'۔ یعنی بڑھاپا 75 سال سال تک ٹھیک، 80 سال پرغلط ہوگیا۔ نکی ہیلی ماضی میں یہ بھی کہتی رہی ہیں کہ ٹرمپ صدارتی امیدوار بنے تو وہ الیکشن نہیں لڑیں گی مگر اب وہ انہی کے مدمقابل ہیں۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابینہ کی رکنیت چھوڑنے پر نکی ہیلی کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کیا تھا ۔اوراب بھی ہلکے پھلکے انداز ہی میں کہا ہےکہ 'نکی ہیلی نے مجھےاپنی زندگی کاسب سےبہتر صدرکہاتھا، انکا جودل چاہے، کریں'۔
ٹرمپ تو نکی کو زیادہ خاطر میں نہیں لائے تاہم سابق صدر کیلئے فنڈریزنگ کرنے والے گروپ نے نکی ہیلی کا کچہ چٹھا کھولنا شروع کردیا ہے اور کہا ہے کہ نکی نےیواین کاعہدہ کارپوریٹ بورڈکارکن بن کررقم کمانے کے لیے چھوڑا تھا،نکی ہیلی نئی پود نہیں،پیشہ ورسیاستدانوں کے قبیلے سے ہیں،ان کیلئے سب سےزیادہ اہم وہ خود ہیں۔
ری پبلکنزکو جو امیدوار بھی میدان میں اترے، جہاں تک ڈیموکریٹس کا تعلق ہے تو صدر جو بائیڈن دوبارہ الیکشن کا ارادہ ظاہر تو کر چکے ہیں مگرابھی انہوں نے اس فیصلے کا کھل کر اظہار نہیں کیا۔ ساتھ ہی موجودہ نائب صدرکاملا ہیرس جنکی والدہ انڈین امریکن تھیں وہ بھی صدر بننے کے سپنے بُن رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا کاملا ہیرس یا نکی ہیلی امریکا کی صدر منتخب ہوسکیں گی یا نہیں؟ بڑی حد تک یقین کےساتھ کم سے کم اتنا کہا جاسکتا ہے کہ نکی ہیلی کے لیے یہ کام جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔
اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے 4 سالہ دور صدارت اور دوسری بار صدارت کی ناکام مہم کےدوران امیگرینٹس کیخلاف نفرت کا جو بیج بویا تھا، اس میں بظاہر نکی ہیلی جیسی انڈین امریکن خاتون کے لیے جگہ بہت تنگ ہے۔
کوئی شک نہیں کہ مڈٹرم الیکشنز میں اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی شکست کے سبب ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے بھی کھلا میدان نہیں مگر سابق امریکی صدر کی تقویت کی سب سے اہم وجہ اس دور کی معیشت ہے۔ جو امریکی اُس دور میں 2 ڈالر کے ایک درجن انڈے خریدتا تھا، آج وہی انڈے 8 ڈالر میں خرید رہا ہو تو اسے ٹرمپ تو یقینا یاد آئیں گے۔ آئندہ 20 ماہ میں یوکرین جنگ ختم ہونے والی نہیں اور معیشت نہ سدھاری تو بائیڈن کیلئے ٹرمپ سے جانا چھڑانا امتحان رہے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔