04 اپریل ، 2023
دنیا میں بانجھ پن کا مسئلہ بہت بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے اور ہر 6 میں سے ایک فرد اس کا شکار ہے۔
یہ انکشاف عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں سامنے آیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں 17.5 فیصد بالغ آبادی کو اپنی زندگی میں کسی وقت بانجھ پن کا سامنا ہوتا ہے۔
عالمی ادارے کی جانب سے ایک دہائی سے زائد عرصے بعد پہلی بار عالمی سطح پر بانجھ پن کے اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔
یہ اعداد و شمار 1990 سے 2021 کے دوران ہونے والی 100 سے زائد طبی تحقیقی رپورٹس پر مبنی تھے۔
امیر، متوسط اور غریب ممالک میں بانجھ پن کی شرح کے موازنے سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ دنیا کے ہر خطے کے لیے ایک سنگین طبی چیلنج ہے۔
امیر ممالک میں یہ شرح 17.8 فیصد جبکہ متوسط اور غریب ممالک میں 16.5 فیصد ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم نے کہا کہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر بانجھ پن کتنا بڑا طبی مسئلہ ہے اور اس حوالے سے تشخیص، علاج اور روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رپورٹ سے ایک اہم سچ کا انکشاف ہوتا ہے کہ بانجھ پن سے کوئی محفوظ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کروڑوں افراد کے لیے اولاد کا حصول ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ثابت ہو رہا ہے، عالمی سطح پر ہر 6 میں سے ایک فرد زندگی میں کسی موقع پر بانجھ پن کا شکار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم نے کہا کہ بانجھ پن کی وجوہات متعدد ہیں اور اکثر پیچیدہ ہیں، مردوں اور خواتین دونوں کو اس مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بشیتر ممالک میں اس حوالے سے طبی سہولیات ناکافی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بانجھ پن سے شکار افراد کی ذہنی اور جسمانی حالت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جبکہ غریب ممالک میں لوگوں کو اس کے علاج پر بہت زیادہ رقم خرچ کرنا پڑتی ہے، جس کے باعث وہ علاج کرانے سے گریز کرتے ہیں۔