بلاگ
Time 10 اپریل ، 2023

پی ڈی ایم کا ایک سال

پی ڈی ایم حکومت کو ایک سال ہو گیا ہے اس دور میں ہر چیز انتہا کو چھو گئی وہ سیاست کی بے رحمی ہو عدلیہ کی بے حسی ہو یا بڑے گھر والوں کے نخرے۔ کسی سولین حکومت کو اسٹبلشمنٹ کی جانب سے اتار دینے والوں کا نوحہ پڑھنے والوں نے ایک سولین حکومت کو چلتا کرنے کے لیے اسٹبلشمنٹ سے ہاتھ ملا لیا اور وہ یہ بات بھول گئے کے بد ترین جمہوری حکومت اچھی آمریت سے بہتر ہے اور منطق یہ ہے کہ جمہوریت میں ادارے اور لوگ اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے عمل میں رہتے ہیں اور آگے بڑھتے رہتے ہیں۔

سویلین لوگوں نے سویلین حکومت کو گرا دیا

اس ایک سال میں جو ہوا اس کا ایک مخصوص پس منظر ہے۔ نواز شریف کی پچھلی حکومت ٹھیک چل رہی تھی کچھ ایشوز اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ضرور تھے لیکن معاملہ نرم گرم ہی تھا۔ اسی دوران پاناما کیس شروع ہوا اور نواز حکومت کے لیے خرابی کا عمل شروع ہوا۔ نواز شریف پر حملے شروع ہو گئے۔ 

چہرہ عمران کا تھا نشانہ کسی اور نے باندھ رکھا تھا۔ نشانے باز کامیاب ہو گئے۔ عمران خان وزیر اعظم بن گئے یا بنادیے گئے پھر نواز کا جیل اور پھر لندن کا سفر شروع ہوگیا۔ اس دوران سیاست میں نفرت کا عنصر گہرا ہوتا رہا۔ 

پاکستان کی تاریخ رہی ہے جسے بغیر الیکشن کے نکالا گیا لوگوں نے اُسے دل میں نشست دے دی ۔ نواز کا جھنڈا مریم نواز نے اٹھالیا اور اس نے اسٹبلشمنٹ پر جارحانہ موقف اختیار کرنے کے لیے اس محاورے پر عمل کرنا شروع کر دیاکہ

پاور ٹالکس ٹو پاور

لوگ مریم کے گرد جمع ہونے لگے مریم ٹی ٹوئنٹی کے کسی جارح سلامی بلے باز کی طرح وکٹ چھوڑ کر اسٹبلشمنٹ کی ہر گیند کو زور دار ہٹ لگا کر پویلین میں پھینکتی رہی۔ اس کے ہر چھکے پر بڑا گھر پریشان اور عمران حیران ہوتا رہا۔ مریم کا ہر چھکا اسے ضمنی انتخاب میں ایک نشست دلا رہا تھا۔

یہاں لوگوں نے اس کا تقابل بے نظیر سے کرنا شروع کر دیا لیکن جلد ہی یہ کام بند کر دیا کیوں کہ مبصرین نے احساس کر لیا تھا کہ یہ تقابل بے کار ہے۔ بے نظیر نوجوان تھی، اس کے باپ کا سایا بھی اس کے سر پر نہیں تھا اور اس کے پھٹی چپل پہنے والوں کارکنوں پر کوڑے برسائے جاتے تھے، وہ سخت ترین حالات سے گزری تھی لیکن بے نظیر نے آمریت سے برسوں جنگ لڑی۔

اُدھر کام عمران سے بھی نہیں ہو رہا تھا، لانے والے پریشان تھے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ یہاں سے پھر طاقت طاقت سے بات کرتی ہے کہ فا رمولے پر عمل ہونا شروع ہو گیا۔ عمران کے برے دن شروع ہو گئے جن کا اختتام تحریک عدم اعتماد اور حکومت کی رخصتی کی صورت میں ہوا ۔ 

یہاں تک سب ٹھیک چلا ۔ کیوں کہ کسی بھی عدم اعتماد کی تحریک کے بعد راست راستہ فوراً انتخابات ہوتے ہیں لیکن پی ڈی ایم کھال بچاؤ مہم پر لگ گئی اس نے ساری قانون سازی بڑے لوگوں کے مفاد میں کی نتیجے کے طور ہر وہ عوام سے کٹ گئی اور رد شدہ عمران عوام میں مقبول ہو تا چلا گیا۔

جس وقت عمران کی حکومت گئ اس وقت ڈالر 190، افراط زر 12 فی صد، پٹرول 150، آٹا ستر اور چینی نوے روپے فی کلو تھی۔ لوگ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان تھے، وہ نئی حکومت سے مہنگائی میں کمی اور زندگی میں بہتری کی توقع کر  رہے تھے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ اب ڈالر تین سو روپے کے لگ بھگ ہے، اسی حساب سے دیگر اشیا کی قیمتیں بھی ہیں۔ ان حالات میں صوبائی الیکشن کیا قومی الیکشن بھی نون کے مفاد میں نہیں ہیں، اسی لیے وہ مستقل اس کاوش میں لگی ہوئی ہے کہ الیکشن جتنی دیر تک ملتوی کیا جا سکیں ، کیے جائیں۔

سوال ہے کیا کیا جائے ۔ کیا صرف ایک دوسرے کے خلاف الزامات سے معاملات بہتر ہو جائیں گے۔

ایسا بالکل نہیں ہو گا۔

ابھی بھی وقت ہے سب اپنی غلطیاں تسلیم کریں اور انتقامی سیاست کو دفن کر کے معیشت پر سیاست نہ کرنے کا معاہدہ کریں پھر الیکشن میں جو پارٹی جیتی اسے پانچ سال سکون سے کام کرنے دیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔