13 جماعتوں کے 365 دن

9 اپریل 2022ء کو رات کے اندھیرے میں جب پی ڈی ایم نامی 13جماعتی اتحاد کو اقتدار تک رسائی دی گئی تو کسے معلوم تھا کہ ملک کیساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ کیا یہ سوچا جا سکتا تھا کہ دستور کی تخلیق کا دعویٰ رکھنے والی جماعت آئین کے بخیے ادھیڑ دے گی؟

 کون سوچ سکتا تھا کہ تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم رہنے والا شخص انتخابات سے راہ فرار اختیار کرے گا؟ کوئی بھی ذی شعور شخص یہ تصور کرنے کیلئے تیار نہ تھا کہ عدلیہ کی تقسیم کی تاریخ دہرائی جائیگی۔ کون سوچ سکتا تھا کہ آئین کے محل سرا پر،آئین شکن حملہ آور ہونگے۔ کس کے گمان میں تھا کہ دستور کی سبز ٹہنیوں کو خزاں آشنا کرنے کی کوشش کی جائیگی۔

 لیکن پوری قوم نے دیکھا کہ یہ سب کچھ ہوا۔ ن لیگ کے ماتھے پر سپریم کورٹ پر حملے کا داغ بھی باقی تھا، موجودہ وزیراعظم اور جسٹس ریٹائرڈ ملک قیوم کی آڈیو ریکارڈنگ کی صدائے بازگشت اب بھی فضاؤں میں موجود تھی، اسلام آباد سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے اسلام آباد تک بریف کیس کے سفر کی روداد کسی کو بھولی نہیں تھی، کہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کی تقسیم کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 

ن لیگ نے ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے ماضی دہرانے کی کوشش کی ہے۔ سپریم کورٹ کی حکم عدولی کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی بھلا دیا گیا کہ یہ تو وہی بینچ ہے جس نے قاسم سوری کی رولنگ کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے تیرہ جماعتی اتحاد کے حکومت میں آنے کیلئے راستہ ہموار کیا تھا۔ یہی عدلیہ تھی جس نے میاں محمد نواز شریف کو سزا پوری کرنے کیلئے محض ایک اسٹامپ پیپر پر بیرون ملک جانے کی سہولت فراہم کی۔ تسلیم کہ عدلیہ کی تاریخ اتنی تابناک نہیں، یہ بھی درست کہ جسٹس منیر جیسے جج صاحبان کے فیصلے آج بھی عدلیہ کیلئے شرمندگی کا باعث ہیں۔ 

لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عدلیہ نے اگر بھٹو کو سزا سنائی تو اس پر عمل ہوا۔ یہ بھی ماننا پڑیگا کہ عدالتوں نے نواز شریف کو جیل میں بھیجنے کا حکم دیا تو انہیں جیل جانا پڑا۔ عدالتوں نے وزرائے اعظم کو نااہل کیا توحکم کی تعمیل ہوئی۔ دنیا بھر کی عدالتوں سے متنازعہ فیصلے آتے رہتے ہیں۔ لیکن معلوم تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ کابینہ نے متفقہ طور پر ایک عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

موجودہ حکمراں اتحاد میں شامل اکثر جماعتیں 1970ء سے لیکر اب تک حکمرانی میں شامل رہی ہیں۔ ریاستی اداروں کیساتھ ملکر کام کرنے اور ان سے ٹکرانے کے نتائج و عواقب سے بھی آگاہ ہیں۔ یہ جماعتیں آئین توڑنے کے نتائج سے بھی بے خبر نہیں۔ یہ لوگ عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونیوالے سانحہ سے بھی آگاہ ہیں لیکن پھر بھی ضد کی پٹی آنکھوں پر بندھی ہے اور گزرے ایک سال کے دوران ایک سابق وزیراعظم پر 144مقدمات درج کئے گئے،سیاسی کارکنان کے گھروں کی دیواریں پھلانگی گئیں۔

طویل عرصے کے بعد ملک میں سیاسی قیدیوں کی اصطلاح ایک مرتبہ پھر متعارف ہوئی،13 جماعتی اتحاد کے اس ایک سال میں آٹے کے حصول کی خاطر لوگوں نے اپنی زندگیاں قربان کیں، ملک بھر میں مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا۔عام آدمی کی حالت روز بروز ناگفتہ بہ ہوتی گئی۔زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوئے، روپیہ تیزی سے گرتا رہا اور ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوتا رہا، کراچی سے لیکر خیبر تک ایک دہائی مچی ہوئی ہے، لیکن یہ شور و غوغا، اسلام آباد کے ایوان اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں تک نہیں پہنچ رہا،خارجہ امور کے میدان میں بھی نااہلی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔

شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ایسا ہو جہاں ہمارے ہونہار وزیرخارجہ نے قدم رنجہ نہ فرمایا ہو،لیکن ان’’آنیوں جانیوں‘‘کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین اور سعودی عرب جیسے ممالک نے بھی قرضہ دینے سےنہ صرف انکار کیا بلکہ مالیاتی گارنٹی تک بھی نہ دی،چین نے سعودی عرب اور ایران کے مابین صلح کروائی،مذکورہ تینوں ممالک کیساتھ پاکستان کے بہترین تعلقات رہے لیکن کسی ملک نے پاکستان کو درخور اعتنا نہ سمجھا، ناکامیوں اور نااہلیوں کی ایک طویل داستان ہے جو اس ایک سال میں رقم ہوئی۔ جہازی سائز کابینہ میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جو حکومت کو درست سمت پر گامزن کر سکے، نہ مسائل حل ہو رہے ہیں اور نہ ہی عوام سے نئے منڈیٹ لینے کی جرات ہو رہی ہے۔ 

یہ نوشتہ دیوار ہے کہ مختلف الخیال جماعتوں کا یہ اتحاد اب چند ماہ کا مہمان ہے۔ الیکشن کا اعلان ہوتے ہی جوتیوں میں دال بٹنا شروع ہو جائیگی۔ پیار محبت کی بہتی ندیا خشک ہو جائیگی۔ ایک دوسرے کو جپھیاں ڈالنے والے باہم دست و گریباں ہونگے لیکن تب تک ریاست پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہوگا۔ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا کہا جاتا تھا انہوں نے ثابت کیا کہ لاڈلا وہ نہیں کوئی اور ہے، حکومت الزام لگاتی تھی کی کہ عمران خان مذاکرات پر آمادہ نہیں انہوں نے مذاکرات کی پیشکش کر کے بڑے بحران کو ٹال دیا ۔اب حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ انا کے خول سے باہر نکلیں۔ پاکستان کیلئے سوچیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی ایک خوش کن خبر ہے۔مذاکرات سے ہی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔