وزیر خارجہ کا دورہ اور بھارتی بوکھلاہٹ

اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا کی نظریں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ بھارت پر مرکوز تھیں، کچھ طاقتیں امید کررہی تھیں کہ پاکستان کے خراب معاشی حالات اور آئی ایم ایف کی جانب سے تمام شرائط مکمل کرنے کے باوجود پاکستان کو قرض کی فراہمی میں دانستہ تاخیر کی وجہ سے پاکستان شاید کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے بھارت سے دوستی بڑھانے کی بات کرے گا۔

 لیکن بھارت میں بیٹھ کر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا اصولی موقف اجاگر کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کیلئے بھارت سے کشمیر کا اگست 2019سے پہلے والا اسٹیٹس بحال کرنے کا مطالبہ کر کے مظلوم کشمیریوں کو پیغام دیا کہ پاکستان ان کی دنیا کے ہر فورم پر اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا جبکہ وہیں دنیا کو یہ بھی باور کرایا کہ پاکستان ایک خود دار ملک ہے اور وقتی طور پر کمزور معیشت پاکستان کو بھارت جیسے ملک کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکتی ،لیکن دوسری جانب بھارتی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی جانب سے اس حق گوئی پر سخت سیخ پا ہوچکا تھا اور ابھی وزیر خارجہ کا طیارہ بھارتی فضائوں سے نکلا بھی نہیں تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو پھیلانے جیسے جھوٹے الزامات عائد کرکے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی کوششوں کو دھچکا پہنچایا اور پاکستانی وزیر خارجہ کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے دوران عالمی میڈیا کے سامنے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا بدلہ پاکستان پر جھوٹے الزامات کی صورت میں لیا۔

 جمعے کی شب وزیر خارجہ بلاول بھٹو بھارتی دورہ مکمل کر کے کراچی پہنچے تو انھوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں راقم بھی شریک تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اجلاس میں دوطرفہ تنازعات پر گفتگو کی اجازت نہیں تھی لیکن جہاں بھی موقع ملا انھوں نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ، ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت بھارت میں ایک انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کی حکومت قائم ہے جس کا ایجنڈا بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دلوانا ہے، مسلمان دشمنی کا یہ عالم ہے کہ ان کی حکومت میں ایک بھی مسلمان وزیر نہیں اور نہ ہی کسی مسلمان کو انتخابی ٹکٹ دیا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ ان کا دورہ بھارت اس حوالے سے کامیاب رہا کہ پاکستان کشمیر سمیت تمام عالمی امور پر اپنا اصولی موقف شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک سمیت بھارتی میڈیا کے ذریعے بھارتی عوام کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب ہوا جبکہ پاکستان کی جانب سے بھارتی وزیر خارجہ اور بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کی کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی۔

 انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ کی جانب سے انھیں دہشت گردوں کا ترجمان کہنے پر حیرانی ہوئی کیونکہ پیپلز پارٹی کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ ان کی جماعت نے ہمیشہ دہشت گردی کی مذمت کی ہے اور وہ خود دہشت گردی کا شکار رہی ہے لہٰذا بھارتی وزیر خارجہ کا ان کے حوالے سے بیان ان کی کم علمی ظاہر کرتا ہے۔

 بہر حال یہ بات تو یقینی ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری ممکن نہیں اور نہ ہی بھارت کشمیر کا اگست 2019 سے پہلے اسٹیٹس کو بحال کرے گا تاہم یہ ضرور ہوا ہے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ بھارت نے دنیا کو بھارت کا اصل چہرہ دکھا دیا۔ 

حقیقت یہ ہے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور سیکرٹری خارجہ ڈاکٹر اسد مجید بہترین سفارتکاری کے ذریعے پاکستان کے اصولی موقف کو عالمی سطح پر نہ صرف بہترین طریقے سے اجاگر کررہے ہیں بلکہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ بھی کررہے ہیں، بقول پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ پینتیس برس تک سیاست کرنے والے ان کےایک قریبی ساتھی کے، انھیں بلاول بھٹو کی سیاست میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست نظر آتی ہے اور انھیں یقین ہے کہ بلاول بھٹو کی شکل میں پاکستان کو ایک بڑا لیڈر ملا ہے جس کی عقل اور سوجھ بوجھ پاکستان کو دنیا میں ایک اعلیٰ مقام دلا سکتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔