پاکستان
22 فروری ، 2012

منصور اعجاز نے فون کا بل اور حقانی سے گفتگوکے نوٹس کمیشن کو دیدیئے

منصور اعجاز نے فون کا بل اور حقانی سے گفتگوکے نوٹس کمیشن کو دیدیئے

اسلام آباد…میمو اسکینڈل کے مرکزی کردار منصوراعجاز نے میمو تحقیقاتی کمیشن کو حسین حقانی کو کی گئی ٹیلی فون کالز کا بل دے دیا ہے جس میں حسین حقانی کا نمبر بھی موجود ہے، منصور اعجاز نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا ہے کہ معاملے کی حساسیت کے باعث ان کے اورحسین حقانی کے درمیان کچھ کوڈ ورڈ تھے، امریکیوں کے لیے لفظ اصفہانی ، پاکستانیوں کے لیے فرینڈز اور صدر پاکستان کے لیے لفظ بوس اور فرینڈ کا کوڈ ورڈ طے تھا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں میمو کمیشن کا اجلاس اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوا، لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن سے ویڈیو لنک کے ذریعے حلفیہ بیان ریکارڈ کرانے کے دوران منصور اعجاز نے اپنے ٹیلی فون کالز کے بل کی کاپی سیکرٹری کمیشن کو دی جسے میمو کمیشن نے فیکس کے ذریعے اسلام آباد منگوا لیا ، حسین حقانی کے وکیل نے بل پر اعتراض لگایا کہ یہ بل اصل نہیں بلکہ اس کی نقل ہے جس پر منصور اعجاز نے کہا کہ بل ای میلز کے ذریعہ ملتا ہے ، وہ بل کی اصل ای میلز دکھا سکتے ہیں اور اس کی تصدیق موبائیل فون کمپنی سے بھی کرائی جا سکتی ہے،جس پر میمو کمیشن نے ہدایت کی کہ موبائیل فون کے بل کی ای میلز سیکرٹری کمیشن کو بجھوائی جائیں اور وہ انہیں پڑھے بغیر کمیشن کو بجھوائیں ،منصور اعجاز نے کمیشن کو بتایا کہ ان کے حسین حقانی سے رابطے 3مئی 2011ء کو شروع ہوئے، حقانی نے بتایا تھا کہ فوج صدر زرداری پر دباوٴ ڈال رہی ہے اور حکومت گراناچاہتی ہے ،یہ پیغام مائیک مولن کو پہنچایا جائے، حقانی کے پیغامات جلد بازی میں تھے اور وہ نروس تھے، منصور اعجاز نے کہا کہ حسین حقانی چاہتے تھے کہ پیغام آرمی چیف جنرل کیانی تک پہنچے، حسین حقانی نے بتایا کہ صدر پاکستان نئی نیشنل سیکورٹی ٹیم بنانا چاہتے ہیں جو امریکا میں نیشنل سیکورٹی آرگنائزیشن کی طرز پر ہو گی ، منصور اعجاز نے حسین حقانی سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران لیے گئے نوٹ بھی سیکرٹری کمیشن کے حوالے کیئے ، سیکرٹری کمیشن نے نوٹس پر اپنے دستخط کر کے اسے ریکارڈ کا حصہ بنا لیا، منصور اعجاز نے بتایا کہ اسے حسین حقانی نے پوائنٹس لکھوائے جو مائیک مولن کو دینا تھے، حقانی نے بتایا کہ حکومت ایبٹ آباد واقعہ پر کمیشن بنانا چاہتی ہے اور اگر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ہٹا دیا جائے تو کمیشن کے ارکان کا انتخاب امریکا کی رائے سے کیا جائے گا اورامریکی افواج دوبارہ ایسے آپریشن کر سکتی ہے، حسین حقانی نے نیو کلیئر پروگرام کے تحفظ کے لیے امریکی معاونت مانگی اور بتایا کہ سابق صدر پرویز مشرف اور سابق امریکی صدر بش کے درمیان ایسے مذاکرات ہو چکے ہیں۔ حسین حقانی نے کہا کہ پاکستان ملا عمر اور ایمن الظواہری کی گرفتاری میں بھی امریکا کی مدد کرے گا اور اسامہ کی تین بیواؤں تک امریکا کو رسائی دے گا۔ حسین حقانی مائیک مولن کے ذریعے پیغام پہنچانا چاہتے تھے اور میں مائیک مولن کو نہیں جانتا تھا، حسین حقانی کو معلوم تھا کہ میری جیمز جونز سے واقفیت ہے ، منصور اعجاز نے بتایا کہ انہوں نے حسین حقانی کو فون کیا اور اگلی کال جیمز جونز کو کی۔ منصور اعجاز کا کہنا ہے کہ وہ صدرآصف علی زرداری، جنرل پرویزمشرف، جنرل احسان الحق اور جنرل پاشا سے بھی ملتے رہے ہیں، سال 2003ء میں سابق آئی ایس آئی چیف جنرل احسان الحق سے برسلز میں ملاقات ہوئی جب کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ 2005ء یا 2006ء میں لندن میں ملاقات ہوئی۔آصف زرداری سے تین بار ملاقات ہوئی جن میں سے آخری 2009ء میں ہوئی ، اس ملاقات میں آصف زرداری کو امریکی کانگریس سے متعلق اہم امور پر بریفنگ دی ، منصور اعجاز کے مطابق جنرل شجاع پاشا سے ملاقات کیلئے آئی ایس آئی کے سینئر افسر نے ان سے رابطہ کیا تھا جس کے بعدیہ ملاقات گزشتہ برس ہوئی۔منصوراعجاز نے کمیشن کو اپنا بلیک بیری فون سیٹ دکھاتے ہوئے اس پر حسین حقانی سے مبینہ رابطوں کی تفصیل بھی پیش کی،زاہد بخاری نے اس کی صحت پر اعتراض کیا تو کمیشن نے لندن میں موجود اپنے سیکریٹری کے ذریعے فون پر یہ پیغام موجود ہونے کی تصدیق کرائی ،اٹارنی جنرل نے بھی اعتراض اٹھایا کہ لندن میں موجود سیکریٹری کمیشن ، الیکٹرانک آلات کے ماہر نہیں ہیں، فون پیغامات کا فرانزک ٹیسٹ ہونا ضروری ہے، منصور اعجاز نے کمیشن کو بتایا کہ ان کے بلیک بیری کا پن کوڈ 2100A04F اور حسین حقانی کے بلیک بیری کا پن کوڈ 2326A31D ہے منصور اعجاز نے کہا کہ حسین حقانی کا ای میل [email protected] ہے اور ای میل ایڈریس کسی صورت تبدیل نہیں ہو سکتا،کمیشن کے اجلاس میں اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے آر آئی ایم کمپنی کا جواب پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کمپنی نے ڈیٹا دینے سے پھر انکار کر دیا ہے ، اس پر منصور اعجاز نے بتایا کہ ان کا بھی کمپنی سے رابطہ ہوا ہے اور انہیں بتایا گیا کہ تین ماہ کے بعد سرور میں ڈیٹا محفوظ نہیں رہتا، میمو کمیشن کے سربراہ نے سوال کیا کہ کیا آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ آر آئی ایم کا جواب درست نہیں۔ جس پر منصور اعجاز نے جواب دیا کہ آپ کمپنی کے ساتھ کمیونی کیشن کی اسٹیج ون پر ہیں، میں اسٹیج تھری تک پہنچ چکا ہوں، کمیشن کہے گا تو کمپنی سے خط وکتابت کا مکمل ریکارڈ پیش کر دوں گا۔ میمو تحقیقاتی کمیشن کا اجلاس کل تک کے لئے ملتوی کر دیا گیا اب اجلاس کی مزید کارروائی کل پاکستان کے وقت کے مطابق دوپہر2بجے ہو گی۔

مزید خبریں :