15 جون ، 2023
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بنیال کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر کے قانون پر اعتراض یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ یہ قانون جلدی بازی میں بنایا گیا، آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت فیصلے کیخلاف اپیل کا حق دینے کیلئے آئینی ترمیم ہونی چاہیے تھی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ محض آرٹیکل 184 کی شق تین کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق دینا امتیازی رویہ ہے۔
سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سے متعلق کیس کل تک ملتوی کردیا گیا، اٹارنی جنرل جمعہ کو بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی دائرہ اختیارات کو بڑھانا غلط بات نہیں ہے، مانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ رولز بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں مگر نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت مانتی ہے کہ دائرہ کار وسیع ہوں لیکن اس میں وجوہات بھی تو شامل کریں ورنہ تو آپ عدالت کے معاملات کو ڈسٹرب ہی کریں گے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مجھے سمجھنے میں دشواری ہے کے 184 (3) میں فیصلوں کے خلاف نظر ثانی کو دیگر فیصلوں سے فرق کیسے کیا گیا؟ میرے لیے تو سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کے خلاف نظر ثانی کا پیمانہ ایک ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نظرثانی رولز کو تبدیل کرنا بھی تھا تو آئینی ترمیم ہونی چاہیے تھی، حکومت ازخود نوٹس کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا دائرہ اختیار وسیع کرنا چاہتی ہے تو ’موسٹ ویلکم‘ لیکن آئینی ترمیم کے ذریعے اپیل کا حق دیا جاسکتا ہے، یہ حکومت کی جلد بازی میں کی گئی قانون سازی ہے، ہمیں حکومت کے اس طریقہ کار سے اتفاق نہیں۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ وقت کے ساتھ 184 (3) کا ہی دائرہ کار وسیع ہوا اس پر نظر ثانی کا دائرہ بھی وسیع ہونا چاہیے تھا جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظر ثانی میں عدالت کے سامنے معاملہ دو فریقین کے تنازع کا نہیں ہوتا، نظر ثانی میں عدالت کے سامنے زیرغور معاملہ اپنا ہی سابقہ فیصلہ ہوتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کر دی ، اٹارنی جنرل کل جمعہ کو بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔