10 جولائی ، 2023
پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایک بار پھر آدھی رات کو تبدیلی آگئی،بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ نجم سیٹھی اور ان کے ساتھیوں کی ،چوہدری ذکا اشرف کے خلاف عدالتی جنگ کئی ہفتے تک ملکی عدالتوں میں چلے گی ایسے میں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کے دستخط سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے بعد 4 ماہ کے لئے نئی منیجمنٹ کمیٹی بن گئی جس کے چیئرمین ذکا اشرف ہی ہیں۔
ذکا اشرف نے جلدی جلدی چارج سنبھالا، پہلی میٹنگ بلائی اور اب جنوبی افریقا میں ہیں جہاں وہ ڈربن میں آئی سی سی میٹنگ میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے، بظاہر جمہوری انداز میں چلنے والے پی سی بی میں کیا کیا فیصلے ہورہے ہیں اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے لیکن جو کچھ ہورہا ہے وہ کرکٹ کیلئے ٹھیک نہیں۔
ذکا اشرف نومبر تک ایم سی کے چیئرمین بنے ہیں اور اگر ملکی حالات میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نہ آئی تو نومبر تک عام انتخابات ہوجائیں گے اور نئے پی سی بی چیئرمین کا انتخاب نئی حکومت تین سال کیلئے کرے گی،حیران کن طور پر نئی منیجمنٹ کمیٹی میں کوئی کرکٹر نہیں، ایک دو کے علاوہ زیادہ تر غیر معروف لوگ ہیں۔
ذکا اشرف پی سی بی چیئر مین بن کر بورڈ کی ہاٹ سیٹ سنبھال چکے ہیں لیکن ان کیلئے چیلنج بہت ہیں، چارج لینے کے بعد وہ کس طرح کی اکھاڑ پچھاڑ کرتے ہیں یہ دیکھنا ضروری ہے۔پاکستان ٹیم کو اس سال ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے بڑے ٹورنامنٹس میں شرکت کرنا ہیں اس ٹورنامنٹس میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی اہم ہوگی۔
نئی منیجمنٹ کمیٹی تشکیل ہونے کے بعدحکومت نے پی سی بی کے چیف الیکشن کمشنر احمد شہزاد فاروق رانا کو عہدے سے ہٹا دیا۔وہ کئی دن سے قائم مقام چیئرمین تھے لیکن اپنا عہدہ بچانے میں ناکام رہے۔احمد شہزاد پر بی او جی میں غیر قانونی کمیٹی بنانے کا بھی الزام لگا۔ پی سی بی کے نئے چیف الیکشن کمشنر محمود اقبال خاکوانی ہوں گے۔ نئی مینجمنٹ کمیٹی آئی سی سی سمیت دیگر امور کو دیکھے گی ۔پی سی بی کی مینجمنٹ کمیٹی 10 رکنی بنائی گئی ہے۔ کمیٹی میں کلیم اللہ خان،اشفاق اختر، مصدق اسلام، عظمت پرویز ،ظہیر عباس،خرم سومرو،خواجہ ندیم،مصطفی رمدے، زولفقار ملک شامل ہیں۔
ظہیر عباس کے بارے میں لوگ سمجھتے رہے کہ وہ سابق کپتان ہیں لیکن ظہیر عباس کا تعلق حیدرآباد سے ہے
نئی کمیٹی میں کوئی کرکٹر نہیں، ظہیر عباس کے بارے میں لوگ سمجھتے رہے کہ وہ سابق کپتان ہیں لیکن ظہیر عباس کا تعلق حیدرآباد سے ہے ۔اکثر ایم سی ممبرز بزنس مین ہیں اور ان کا کرکٹ سے تعلق نہیں ۔پاکستان کرکٹ میں اقتدار کے لئے جس طرح کی لڑائی چل رہی ہے ایسا نہ ہو کہ پی سی بی بھی ویسٹ انڈین کرکٹ کی ڈگر پر چل پڑے۔
پاکستانی کرکٹرز کا پرچم کرکٹرزنے بلند رکھا ہوا ہے۔ چیئرمین رمیز راجا ہوں،احسان مانی ہوں، نجم سیٹھی یا ذکا اشرف، کرکٹرز ٹیم کو جتوارہے ہیں اور پی سی بی راہداریوں کی سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ نجم سیٹھی نے ہارون رشید کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول دے دیا تھا ۔وہ سیاہ سفید کے مالک بنے ہوئے تھے۔فور ان ون ہارون رشید کو چیف سلیکٹر کے عہدے سے بھی فارغ کردیا گیا۔
چار بڑے عہدوں پر کام کرنے والے ہارون رشید کو تمام عہدوں سے الگ کردیا گیا،70سالہ ہارون رشید نے پاکستان کی جانب سے23ٹیسٹ اور12ون ڈے انٹر نیشنل میچ کھیلے لیکن وہ کئی دہائیوں سے پاکستان کرکٹ میں مختلف عہدوں ذمے داریاں نبھارہے ہیں۔انہیں پاور کوریڈورکے قریب تسلیم کیا جاتا تھا، انہوں نے غیر ملکی اور ملکی کوچز سے معاہدے کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
انہوں نے افغانستان کے خلاف کمزور ٹیم منتخب کرکے بڑے کھلاڑیوں کو آرام دیا اور پاکستان کو تاریخ میں پہلی بار افغانستان کے ہاتھوں ٹی ٹوئنٹی انٹر نیشنل سیریز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ میں جنید ضیاکے پاس ڈومیسٹک کرکٹ کا چارج ہے یہ عہدہ بھی ہارون رشید کے پاس تھا۔
جبکہ ایزد سید کی جگہ ذاکر خان قومی اکیڈمی کے انچارج ہیںہارون رشید کی برطرفی کے بعد اب پاکستان کرکٹ ٹیم میں چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی خالی ہے اور سری لنکا کی سیریز میں اگر کسی کھلاڑی کا متبادل مانگا گیا تو اس کا فیصلہ ڈائریکٹر مکی آرتھر، ہیڈ کوچ گرانٹ بریڈ برن،انالسٹ حسن چیمہ اور کپتان بابر اعظم کریں گے۔ ہارون رشید کو شاہد آفریدی کے ساتھ سلیکٹر بنایا گیا تھا،شاہد آفریدی نے جب سلیکشن کمیٹی چھوڑی تو ہارون رشید کو چیف سلیکٹر مقرر کیا گیا۔
پی سی بی کا کہنا ہے کہ سری لنکا کے دورے کے لئے پاکستانی ٹیم اور پاکستان شاہینز کا اعلان ہوچکا ہے۔اگر کوئی کھلاڑی ان فٹ ہوتا ہے اور سلیکشن کمیٹی درخواست کرتی ہے۔تو مکی آرتھر، گرانٹ، حسن اور بابر اعظم کی مشاورت سے متبادل کھلاڑی کا فیصلہ کیا جائے گا۔
تین ماہ کی مدت کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد پاکستان کی جونیئر سلیکشن کمیٹی بھی فارغ ہوگئی : ذرائع
ذرائع کے مطابق تین ماہ کی مدت کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد پاکستان کی جونیئر سلیکشن کمیٹی بھی فارغ ہوگئی۔ نئے چیئرمین کی تقرری کے بعد سینئر اور جونیئر سلیکشن کمیٹیوں کا تقرر کیا جائے گا جبکہ موجود کوچز کے معاہدوں پر ازسر نو نظر ثانی کی جائے گی۔یقینی طور پر ذکا اشرف اہم فیصلے کریں گے۔ نجم سیٹھی7 ماہ کرکٹ میں رہے، وفاقی حکومت نے پاکستان کرکٹ بورڈ منیجمنٹ کمیٹی دور کا تمام ریکارڈ دوبارہ مانگ لیا ہے۔حکومت نے پی سی بی چیف آپریٹنگ آفیسر سلمان نصیر کو دوبارہ یاد ہانی کا خط تحریر کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نےنجم سیٹھی دور میں بھرتیوں کا تمام ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے، پی سی بی ذرائع کا کہنا ہے کہ پی سی بی خود مختار ادارہ ہے اور حکومت سے کوئی مدد نہیں لیتا، البتہ وزیر اعظم چوں کہ پی سی بی کے پیٹرن ہیں اسلئے وہ پی سی بی سے جواب طلب کرسکتے ہیں البتہ پی سی بی نے اس معاملے پر تبصرے سے گریز کیا ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے تاحال منیجمنٹ کمیٹی دور کا ریکارڈ فراہم نہیں کیاگیا،جس میں کوچز سمیت کنٹریکٹ اور مستقل تعیناتیوں، منیجمنٹ کمیٹی کے دور میں اخراجات کے تمام ریکارڈ،کمیٹی ممبران کے اخراجات اور معاہدوں کی تفصیلات بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزارت بین الصوبائی رابطہ نے پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی دور میں کوچز اور آفیشلز کےخلاف انکوائریاں ختم کرنے کا بھی سوال کیاہےاور ریکارڈ 4 جولائی تک فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزارت بین الصوبائی رابطہ نے یاد دہانی خطوط 16مئی اور 2،13،22 جون کو لکھ چکی ہے اور حالیہ خط کی کاپی وزیراعظم آفس کو بھی ارسال کی گئی ہے۔ پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی کے غیر ضروری اخراجات سے متعلق شکایات پر بھی وزارتِ بین الصوبائی رابطہ نے ریکارڈ طلب کر رکھا ہے۔نجم سیٹھی کے ساتھ کام کرنے والے لوگ وفاقی وزیر احسان مزاری پر الزام لگارہے ہیں کہ انہوں نے پی سی بی سے بڑی رقم حاصل کی،احسان مزاری اس کی تردید کرتے ہیں۔
دراصل دو ہیوی ویٹس کی لڑائی میں کرکٹ کو نقصان ہورہا ہے
دراصل دو ہیوی ویٹس کی لڑائی میں کرکٹ کو نقصان ہورہا ہے،نئی منیجمنٹ کمیٹی بننے کے بعد سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ڈپارٹمنٹل اور ریجنل کرکٹ کی بحالی کا کیا بنے گا۔ سابق چیئرمین رمیز راجا بھی نوید سنا رہے کہ وہ کمنٹری باکس میں واپس آرہے ہیں۔ صحافیوں، کھلاڑیوں اور منتظمین کی روزی روٹی بھی کرکٹ سے وابستہ ہے اگر کرکٹ کو نقصان ہوا تو سب اس کی زد میں آئیں گے لہذا سب کو اس کھیل کو بچانے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔