پاکستانی معیشت کی ریٹنگ میں اضافہ

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کیلئے 3ارب ڈالرکے اسٹینڈ بائی معاہدے کی منظوری دیدی ہے اورایک ارب 20کروڑ ڈالر کی پہلی قسط فوری جاری کر دی ہے باقی رقم نومبر اور فروری میں ادا ہو گی ۔ سعودی عرب کی جانب سے 2ارب ڈالر کے ڈپازٹس اسٹیٹ بینک کو موصول ہوگئے ہیں ۔

 متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی اسٹیٹ بینک کو ایک ارب ڈالرکے ڈپازٹس موصول ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار پائے جاتے ہیں ۔ڈالر کی قیمت میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے اور طویل عرصہ سے بندر گاہوں پر پھنسے ہوئے 6ہزار در آمدی کنٹینرز کی ادائیگیوں اور در آمدات پر عائد غیر علانیہ پابندیاں ختم ہو نے کے بعد نئی امپورٹ ایل سیز کھلنے سے ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہےجبکہ لیٹر آف کریڈٹ کھلنے میں بھی تیزی آگئی ہے ،اسٹاک ایکسچینج میں اضافہ دیکھنےمیں آیا اور ڈالر کی قدر میں کمی کی وجہ سے مطلوبہ ڈیمانڈ پوری ہوتے ہی ڈالر دوبارہ بیک فٹ پر آجائے گا،البتہ ورکرز ریمی ٹینسز میں کمی قابل تشویش امر ہے ۔

حکومت کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر میں 10کروڑ ہنر مند افرادی قوت کی ضرورت ہے،پاکستان اگر ہنر مند افرادی قوت تیار کرنے پر توجہ دے اور انہیں سرکاری بندوبست سے بیرون ملک بھیجا جائے تو ملک میں ماہانہ ورکرز ریمی ٹینسز کی آمد کی مالیت 4ارب ڈالرتک پہنچ سکتی ہے ۔بین الاقوامی کریڈ ٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستانی معیشت کی ریٹنگ اپ گریڈ کر دی۔ طویل المیعاد غیر ملکی کرنسی کی درجہ بندی کو اپ گریڈ کر کے ٹرپل سی کر دیا ۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ موجودہ معاشی بحالی کے سفر کی جانب ایک اور مثبت قدم ہے ۔دوسری جانب ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئر مین بوستان نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ عارضی ہے،ڈالر بہت جلد 250پر آجائے گا۔

سول حکومت اور مسلح افواج کے اشتراک سے ملک میں زرعی انقلاب کیلئے اٹھایا گیا قدم اب تک کا سب سے بڑا قدم ہے ،اگر اس پر مکمل طور پر عمل در آمد کو یقینی بنا لیا جائے تو پاکستان چند برسوں میں عالمی معاشی قوت کے طور پر ابھر سکتا ہے ۔ وزیر اعظم نے درست کہا کہ یہ منصوبہ صرف 2برس میں پاکستان کو عالمی اداروں کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد کردے گا۔5برس میں 50ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور 40لاکھ افراد کیلئے روزگار اپنی سطح پر ایک بہت بڑا انقلاب ہے ، اس کے نتیجے میں جو معاشی سرگرمیاں جنم لیں گی اور خوراک کی قیمتوں میں جو استحکام آئے گا وہ اس کے علاوہ ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبہ پاکستان کی معاشی تقدیر بدل سکتا ہے ،آرمی چیف نے درست کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمارا راستہ نہیں روک سکتی ۔ترقی ،استحکام اور خوشحالی پاکستان کا مقدر ہے ۔

دوسری جانب بلوچستان کے علاقے ژوب میں گزشتہ روز دہشتگردوں کے حملے کو ناکام بنانا پاک فوج کے جوانوں کی مستعدی پیشہ ورانہ قابلیت اور دفاع وطن کے عزم صمیم کی دلیل ہے۔خبروں کے مطابق دہشتگردوں کا جتھا علی الصبح ژوب کینٹ میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا کہ پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر ان کا مقابلہ کیا اور انہیں ختم کیا ۔سیکورٹی امور کے ایک تحقیقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے نصف میں دہشتگردی کے واقعات میں 79فیصد اضافہ ہوا ہے اس عرصے کے دوران ملک میں دہشتگردی کے کل 271 واقعات ہوئے ،جن میں 389اموات ہوئیں۔

 2022کے اس دورانیے میں دہشتگردی کے 151واقعات ہوئے ،جن میں 293افراد جاں بحق ہوئے ۔خیبر پختونخوااس سال بھی دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثرصوبہ رہا جہاں پہلے 6ماہ کے دوران 174حملے رپورٹ ہوئے جن میں 266اموات ہوئیں اور 463افراد زخمی ہوئے ان حملوں میں سے 100خیبر پختونخوا کے بندوبستی علاقوں میں ہوئے ،جن میں 188افراد جاں بحق اور 354زخمی ہوئے ،جبکہ دہشتگردی کے 74واقعات قبائلی اضلاع (سابق فاٹا)میں پیش آئے ،جن میں 78افراد مارے گئے ۔2022کے پہلے نصف کے مقابلے میں رواں سال خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں دہشتگردی کے حملوں میں51فیصد اضافہ ہوا۔

 اس دوران بلوچستان میں دہشتگردی کے 75واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 100افراد جاں بحق اور 163زخمی ہوئے ۔ بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں گزشتہ سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں 103فیصد اور جانی نقصان میں 61فیصد ہوا ۔اس سال پنجاب میں دہشتگردی کے 8واقعات میں 6اموات ہوئیں،گزشتہ برس کی پہلی ششماہی میں یہاں دہشتگردی کا صرف ایک واقعہ پیش آیا تھا۔دہشتگردی کے حوالے سے رواں سال کے پہلے نصف میں سندھ میں 13واقعات میں 19اموات ہوئیں ،جو گزشتہ برس کی پہلی ششماہی کی نسبت 19فیصد کم ہیں۔

 ملک میں دہشتگردی کے واقعات کے اس شماریاتی جائزے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دہشتگردی کے خطرات کے پی اور بلوچستان کے علاقوں میں زیادہ ہیں۔ پاکستان کیلئے سیکورٹی کے ان خدشات کا تعلق افغانستان کے داخلی انتشار اور ریاستی عدم استحکام سے ہے ۔قریب ڈھائی ہزار کلو میٹر پر پھیلی پاک افغان سرحد پر دہشتگردوں کی در اندازی کو روکنا بلاشبہ غیر معمولی چیلنج ہے ۔افواج پاکستان کی کوششوں اور نگرانی کے نسبتاََ بہتر اقدامات کی بدولت عسکریت پسندوں کی سرحد پارآنے جانے کی صلاحیت میں وقت کے ساتھ کمی آئی ہے مگر دراندازی کو مکمل روکنے کیلئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔