آئے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی

دنیا بھر میں موسیقی کو دیگر فنون کی نسبت ایک امتیازی مقام دیا جاتا ہے، کوئی اسے Universal Language کہہ کر پیار کا اظہارکرتا ہے تو کہیں اسے Mother of All Arts کہہ کر احترام دیا جاتا ہے،  شاید اسی وجہ سے وہاں دیگر فنون کی نسبت موسیقی کے شائقین کی تعداد بھی زیادہ ہے۔

اس کے برعکس ہمارے ہاں موسیقی کے بارے میں ایک منفی رائے موجود ہے جس کی وجہ سے یہاں شائقین کی تعداد میں اور اُن کے شوق کی شدت میں دیگر ممالک کی نسبت ایک واضع فرق نظر آتا ہے لیکن اس بنیادی فرق کے باوجود بھی یہاں موسیقی کے رسیا لوگوں کی ایک مناسب تعداد موجود ہے۔

اِن موسیقی سے رغبت رکھنے والوں کا تعلق چاہے دنیا کے کسی خطے سے بھی ہو لیکن ان میں عام طور پر دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ کہ جو خود کو موسیقی کی صوتی چاشنی سے لطف اندوز ہونے تک ہی محدود رکھتے ہیں اور دوسرے وہ کہ جو اس فن کے تکنیکی اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے اس فن کو باقائدہ سیکھنے کی سعی بھی کرتے ہیں۔

 اب اِن میں سے کتنوں کو عوام الناس میں پذیرائی ملتی ہے اور کتنے خواص کو متاثر کرتے ہیں، یہ ایک بڑا سوال ہے جس پر پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے، اور ضرور کریں گے، کیوں کہ اس پر بات کی جانی چاہیے، بہرحال یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اِن میں سے اکثریت کہیں بھی نہیں پہنچ پاتی، جو ایک افسوسناک امر ہے۔

اِنہیں میں سے کچھ ہمدردانِ فن کی شکایت ہے کہ ہمارے ہاں جو لوگ موسیقی سکھاتے ہیں ، وہ خود سکھانے، سمجھانے کے طریقوں سے ناواقف ہوتے ہیں ، گویا غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں، لہٰذا وہ اپنی اس کمی کو چھپانے کے لیے خود ساختہ بلکہ الل ٹپ طریقے اپناتے ہیں جس سے سیکھنے والوں کا وقت اور پیسہ دونوں برباد ہوتا ہے۔

اور ایک مکتب کا کہنا یہ ہے کہ:

اگر بفرضِ محال کسی فرد یا گروہ (جنہیں ہم موسیقی کے گھرانے کہتے ہیں) کے پاس یہ فن درست حالت میں موجود بھی ہے تو بھی وہ درست چیز سکھانے میں بخیلی کرتے ہیں بلکہ سکھانا ہی نہیں چاہتے تاکہ اس کام پر اُن کی، صرف اُن کی اجارہ داری قائم رہ سکے۔

یہ اور ایسی کئی اور شکایات ہیں کہ جو سننے میں ایسے تُرش اور کڑوے ذائقے کی طرح محسوس ہوتی ہیں کہ جن کو زبان سے لگاتے ہی پورا جسم دوبارہ کے لئے اپنی ناپسندیدگی کا اِظہارکر دیتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کڑواہٹیں آج تک موجود ہی کیوں ہیں ؟؟ ہمارے فنکار اور شائق کے درمیان یہ بد اعتمادی کی دھند اتنی گہری کیسے ہو گئی؟؟ اس کو کیوں ختم، یا کچھ کم نہیں کیا جاسکا؟؟۔

جبکہ ہمارے پاس بہت باعلم اور قابل موسیقاروں کے ساتھ ساتھ بڑے جہاندیدہ اور معاملہ فہم فیصلہ سازوں کی ایک کہکشاں موجود رہی ہے، تو پھر بات ثقافتی دیوالیہ پن تک کیسے پہنچ گئی؟؟ دنیاں بھر کے ممالک تو اپنے روایتی موسیقاروں کےذریعہ اپنے دوستوں میں اضافہ کر تے ہیں اور ان کے فنکار ایک دوست کے عوام میں جاکر آپسی اعتماد کو بہترکر تے ہیں اور یوں وہ اپنے اپنے ثقافت و سیاحت کے شعبے کو بھی فروغ دیتے ہیں اور زرِمبادلہ پر بھی اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

لیکن ہم اپنےمحنتی اور competent فنکاروں کے ہوتے ہوئے ثقافتی تباہ حالی کی طرف کیوں دوڑے چلے جا تے ہیں؟؟

ہم میں سے کس سے دانستہ یا غیر دانستہ غفلت سرزد ہو رہی ہے؟؟؟

چلئے آج ان سوالوں کے جواب ڈھونڈتے ہیں۔

سب سے پہلے تو شائقینِ موسیقی کی شکایات کو جزوی طور پر درست تسلیم کرتے ہوئے اس پر کچھ بات کرتے ہیں ، اس وضاحت سے پہلے یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ یہ شکایت پاکستان کے شائقین کی ہیں، لہٰذا ہماری بات پاکستان بننے کے بعد سے شروع ہوگی۔

پاکستان بننے کے ابتدائی دور میں ہمارے پاس اچھے اساتذہ ضرور تھے لیکن فنکاروں کیلئے روزگار کے مواقع اور ذرائع آمدن محدود ہونے کی وجہ سے تمام اچھے فنکاروں کا رجحان سیکھنے سکھانے سے زیادہ تلاشِ روزگار اور حصولِ روزگار کی طرف تھا، جس کی وجہ سے اُن کا زیادہ تر وقت ریڈیو اسٹیشن، اور فلم اسٹوڈیو، اور بعدازاں، ٹیلی ویژن اسٹیشن کے چکر کاٹتے ہوئے گزر جاتا۔ 

لہٰذا اچھے اساتذہ سیکھنے والوں کے لئے بہت کم وقت مختص کر پاتے، اور یوں سیکھنے اور اچھے اساتذہ کے درمیان ایک فاصلہ پیدا ہوا، جس سے موسیقی کی واجبی سی معلومات رکھنے والے (ماسٹر جی ٹائپ) لوگوں نے دوڑ دوڑ کر ہر نئے سیکھنے والوں کے سامنے خود کوحقیقی استاد ظاہر کیا اور اپنے الل ٹپ طریقوں کو درست ظاہرکر کے سیکھنے والوں کے شوق اور کم علمی کا فائدہ اُٹھایا اور ان کا وقت اور پیسہ دونوں برباد کیا۔

یہاں پر ہمارے تشہیری اداروں کے اُن خود سر فیصلہ سازوں کا ذکر بہت ضروری ہے ۔ یہ وہ Mindset تھا کہ جنہوں نے صرف اپنے منصبی اختیارات کی نمائش کی خاطر اپنے غلط فیصلوں پر بزورِ بازو عمل کروایا، اور نتیجتاً استاد بڑے غلام علی خان صاحب دل برداشتہ ہو کر ملک چھوڑ گئے۔ یہ وہ mindset تھا کہ جس نے منطق کی بجائے منصب کی طاقت کو استعمال کیا اور نتیجاً اپنی قابلیت پر تکیہ کرنے والے قابل اور خوددار فنکار نظرانداز اور گمنام ہوتے چلے گئے اور مفاد پرست مضبوط اور نمایاں ہوتے چلےگئے ۔ یوں ایک ایسا گروہ سامنے آتا چلا گیا کہ جوعلم اور قابلیت کے فقدان کے باوجود معروف ہوا۔

یہاں ضمناً یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جس طرح کسی کی قابلیت جانچنے کے لئے جانچنے والے کا زیادہ قابل ہونا شرط ہے، بالکل اسہی طرح موسیقی میں قابلیت جانچنے کے لئے بھی یہ ہی پیمانہ ہے لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ ہمارے ہاں اچھے اور بہت اچھے فنکار کی درجہ بندی کا فیصلہ بھی ایسے ہی صاحبانِ اختیار نے کیا کہ جو خود اس فن سے نا واقف تھے، جس کا ثمر یہ ہے کہ آج ہم اپنی روایتی موسیقی کے دیوالیہ پن کو بھگت رہے ہیں۔

اگرہم نے اس سلسلے میں اپنی سمت درست رکھی ہوتی اوراُس شعبۂ فن کے حقیقی Stakeholders یعنی اس سے براہِ راست منسوب لوگوں کی مشاورت سے فیصلے کیے ہوتے تو یہ لوگوں کا وقت اور پیسہ برباد کرنے والی کلاس ہی پیدا نہ ہوتی۔ اور آج نہ کوئی موروثیت کی شکایت کرتا اور نہ ہی حق تلفی کی ، اور ہمارے پاس نا صرف ہمارے علاقے سے تعلق رکھنے والے روایتی فنون بلکہ ہمارے اپنے خطے کی ثقافت کی ترجمانی کرنے والے فنکاروں کا کال نہیں بلکہ جال ہوتا۔

 آپ غور تو کریں کہ آج اگر آپ ایسے چار نام ڈھونڈنے کی کوشش کریں کہ جو ہمارے خطے کی روایتی موسیقی سے جڑے ہوں تو آپ کو پورے ملک میں ذہن گھما کر بھی اپنی ثقافت کی نمائندگی کرنے والے گنتی کے چند مجبور ناموں کے علاوہ کوئی نام نظر نہیں آئے گا۔ لیکن خواہش ہماری یہ ہے کہ لوگ ہمیں نرم دل ، امن پسند اور انسان دوست ، بلکہ دوست تسلیم کریں۔ 

نہیں جناب !! یہ دور ذرائع ابلاغ کی ترقی کا دور ہے۔ آج آپ یہاں سوچنا شروع کرتے ہیں تو آپ کا مدِمقابل نا صرف آپ کی سوچ کو بھانپ لیتا ہے بلکہ اس سے آگے کی سوچ پرعمل درآمد شروع کر دیتا ہے،  آج صرف اندازوں اور خواہشات کے بجائے حقائق پر مبنی فیصلے کی ہی کوئی حیثیت ہے، اب بھی اگر اچھے نتائج چاہیے تو ہمیں اپنی سمت درست کرنی ہی پڑے گی،  اگر ہم آج بھی ایسا کر لیں تو اس تیز رفتار دنیا سے بہت پیچھے رہ جانے کے باوجود اس کے برابر آنا اور اس کے قدم سے قدم ملاکر چلنا کوئی مشکل کام نہیں ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔