بلاگ
Time 17 ستمبر ، 2023

مقابلہ حسن

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے وزارت خارجہ کو کہاہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کے حکام سے پوچھیں کہ کس طرح ایک کمپنی حکومت کی منظوری کے بغیر مس یونیورس مقابلہ میں پاکستان کو شریک کر سکتی ہے ۔مقابلہ حسن منعقد کرسکتی ہے۔

اس بات کی تحقیقات کرے کہ پاکستانی ماڈلز کے مقابلہ حسن کا انتظام کون کر رہا ہے اور اس میں حصہ لینے کیلئے کون کون پاکستان کا نام استعمال کر رہا ہے۔ عورت کی آزادی پچھلی کچھ دہائیوں میں پاکستان میں مسئلہ بنتی جارہی ہے ۔’’میرا جسم میری مرضی ‘‘ جیسے سلوگن پاکستان کے زیادہ تر مردوں کیلئےناقابل ِ قبول ہیں ۔اس کے پس منظر پر غور کیا جائے تو بات بہت پیچھے سے شروع کرنا پڑے گی ۔

 ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا تھا کہ’’ آریا لوگوں کا معاشرہ پدری تھاجب کہ دراوڑوں کا معاشرہ مادری تھا ‘‘یعنی قدیم دراوڑوں میں خاندان کی حکمرانی عورت کے پاس تھی۔وہ اپنی بات کی دلیل دیتے ہوئے کہتے تھےآریا تحرک اور آوارہ خرامی کے علم بردار تھے۔ ان کازمین کے ساتھ رشتہ مضبوط نہیں تھادراوڑوں کا معاشرہ مادری تھا کیونکہ وہ زراعت پیشہ تھے ۔ رشید ملک کہتے تھے کہ مادر سری تہذیبوں میں ہندوستان یا وادی سندھ کوشامل نہیںکیا جا سکتا مگر زیادہ ترتاریخ دان یہی کہتے ہیں کہ وادی سندھ کا دراوڑی معاشرہ مادر سری معاشرہ ہی تھااور وہ زراعت پیشہ لوگ تھے ۔

قدیم زمانہ میں انسانی تمدن عورت کامرہون احسان تھا۔اس کی برتری افزائش ، پرورش کے سبب تھی اور یہ افزائش و پرورش زراعت اور نسلِ انسانی دونوں میدانوں میں عورت کا کارنامہ سمجھی جاتی تھی اس لئے مادر سری نظام وجود میں آیااور صدیوں تک مصر ، عراق ، یونان ، ایشیائے کوچک اور وادی ء سندھ میں رائج رہا ۔زمین اور عورت کے تخلیقی عمل کو یکساں سمجھ کر اسی دور میں زمین کیلئے مادرِ ارض اور دھرتی ماتا جیسے الفاظ استعمال کئے گئے۔لوگوں کے عقائد میں شامل ہوگیا کہ عورتیں ہی بہترین فصلیں اگا سکتی ہیں اسی زمانے میں عورتوں کی مورتیاں تراشی گئیں اور بہتر فصل کی تمنا میں مختلف موسموں میں ان مورتیوں کی عبادت کی گئی ۔

موہنجو داڑو کی مورتیوں کے بارے میں سر جان مارشل لکھتے ہیں ’’ہر شخص جانتا ہے کہ وادی سندھ اور بلوچستان سے جو مورتیاں ملی ہیں ، اسی طرح کی مورتیاں عراق ، شام ، فلسطین ، قبرص، کریٹ ، بلقان، ایران اور مصر میں کائنات یا قدرت کی دیوی کی ہیں۔ وادی سندھ کی مورتیاں مغربی ایشیا کی مورتیوں کی طرح سماج کے مادر سری دور میں وجود پذیر ہوئی ہونگی ۔‘‘ ہڑپہ کی کھدائی سے جو تین ہزار سال پرانی مہریں برآمد ہوئیں ان پر عورت کو ہی پودوں کے نامیاتی عمل کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

کچھ مورخوں اور ماہرین بشریات نے یہ بھی کہا ہے کہ مادرسری معاشرے کادنیامیں کوئی دور رہا ہی نہیں ۔وہ لکھتے ہیںکہ مادری نظام کبھی وجود میں نہیں آیا‘‘(انسائیکلوپیڑیابرٹینکا(مائیکرو) (1983جلد vii، ص 691،692)ایک حوالہ اور بھی بڑا اہم ہے ’’ہنری سٹیفن ، بریفالٹ اور ہنری مین کا پیش کردہ یہ خیال کہ اقتدار عورتوں کے ہاتھوں میں ہوتا تھا کب کا باطل قرار دیا جا چکا ہے لیکن ایشیا اور یورپ میں مادر پرستی کو موجودہ علم قبول کرتا ہے‘‘

بہرحال یہاں کی عورت آزادی مانگتی ہے حکمرانی چاہتی ہے مغرب کی طرح سو مغرب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقابلہ حسن میں شریک ہونا چاہتی ہے اور یہاں کا مرد کہتا ہے

مادر سری معاشرت گھر میں نہیں مرے

پندارِ عہدِ مرد بھی سر میں نہیں مرے

اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم فلمیں بناتے ہیں ڈراے تخلیق کرتے ہیں ۔ ان میں کام کرنے والوں اور والیوں کو ہیرو اور ہیروئین کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ بنانے والے والے خوبصورت سے خوبصورت لڑکی کاسٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دیتے ہیں۔ پوری طرح فلم اینڈ ٹیلی ویژن کی سر پرستی کرتے ہیں ۔ تقریباً ہر بڑی یونیورسٹی میں فلم اینڈ ٹی وی کا باقاعدہ شعبہ ہے ۔ ایسےمیں ہمیں اس بات پر اعتراض کی کیا گنجائش بنتی ہے کہ پاکستانی لڑکیاں مقابلہ حسن میں شریک نہ ہوں ۔وزیر اعظم کے حکم سے ایک بات اور بھی نکلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ حکومت کی اجازت کےبغیر کوئی پاکستانی لڑکی کیسے پاکستان کا نام استعمال کر سکتی ہے۔

میرے خیال میں یہ بات صرف اس وقت کہی جاسکتی ہے جب حکومت پاکستان خود سرکاری سطح پر مقابلہ حسن کرائے اور کسی ایک لڑکی کو مس پاکستان کا اعزاز دے ۔اتنی ہمت یہاں کوئی حکومت نہیں کر سکتی ۔دوسرا اس بات پر بھی قانونی طور پر کوئی پابندی نہیں کہ کوئی پاکستانی لڑکی مقابلہ حسن میں حصہ نہیں لے سکتی ۔اب جو لڑکی پاکستانی ہے اس نے تو نام کے آگے اپنے ملک کے خانے میں پاکستان ہی لکھنا ہے ۔ مس پاکستانی کا ایک مقابلہ پچھلے دنوں لاہور میں بھی ہواتھا ۔ کینیڈا میں ایک بار مس پاکستانی بنائی گئی ۔ یعنی پاکستانی لڑکیاں برسوں سے اپنے حسن کا مقابلہ کرتی چلی آ رہی ہیں ۔ 

اس بار یہ کام دبئی میں ہورہا ہے بس اتنا فرق ہے ۔میرے خیال میں نگران وزیر اعظم کو ایسے معاملات میں دخل اندازی کی بجائے وہ کام کرنے چاہئیں جو انہیں آئین ِ پاکستان تفویض کرتا ہے۔یعنی صاف اور شفاف الیکشن ۔مہنگائی بڑھانے کی بجائے کم کرنے کی کوششیں کرنی چاہئیں۔ پٹرول کی قیمت پھر بڑھا دی گئی ہے۔یقیناً ابھی مہنگائی میں اور اضافہ ہوگا ۔جیون اور دشوار ہو گا ۔ زندگی میں پہلی بار سنا ہے کہ لوگ پاکستان سے افغانستان بھاگ رہے ہیں۔ ایران اور عراق زیارات پر جانے والے بے شمار لوگ واپس نہیں آئے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔