Time 13 دسمبر ، 2024
بلاگ

’’آخری پتے کا کھیل ‘‘

دھماکہ خیز ہفتہ گزر گیا، دھماکے دار ہفتہ شروع، فریقین آخری پتہ کھیل گئے۔ ’’ہم حکومت سے کسی پیشگی مطالبے یا غیر مشروط مذاکرات کیلئے تیار ہیں‘‘، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی، شبلی فراز، اسد قیصر، سلمان اکرم راجہ، شیخ وقاص وغیرہ کی نئی نویلی بُردباری، لجاجت اور منکسر المزاجی، منت سماجت PTIکی انوکھی تصویر اور خیرہ کن کہانی سامنے ہے۔

 بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، کاش 10اپریل 2022کو یہی رویہ اپناتے تو سیاسی رفعتیں پاتے۔PTI رہنماؤں کی گھن گرج، ’’عزم صمیم کہ کرپٹ سیاستدانوں کی ’فارم 47‘ حکومت کو چمٹے سے نہیں اٹھائیں گے‘‘، بیانیہ جھاگ کی طرح بیٹھ چکا ہے۔

قبل ازیں عمران خان نے بقلم خود مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی، بنفس نفیس حکومت سے مذاکرات کو حلال قرار دے دیا۔ ستم ظریفی دوران بغیر معافی مانگے محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان کو ہم جولی بنایا اور اب مسلم لیگ ن سے مذاکرات کی کڑوی گولی نگل لی ہے، بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ نیا یوٹرن ملکی سیاست کیلئے خوش آئند ہے۔ یقیناً! سیاسی جماعتوں کی بیٹھک، سیاسی استحکام کی طرف شروعات، سیاسی رواداری کیلئے ایک اہم قدم ہے۔

’’مارؤ یا مر جاؤ‘‘ احتجاج کی شاندار ناکامی کے بعد، ہمشیرہ صاحبہ نے جب پہلی دفعہ کلام شاعر بذبان شاعر، عمران خان کو 26 نومبر کے حالات سے آگاہ کیا، ’’ڈی چوک پر خون کی ندیاں رواں، نشانہ بازوں نے تاک تاک کر لاشوں پہ لاشیں گرائیں‘‘ تو نرم دل عمران خان سُن کر صدمہ سے نڈھال ہو گئے۔ ’’آخری پتہ‘‘ کھیلنے کا بڑا فیصلہ کر ڈالا۔

 نئی نویلی ہزیمت ’’مارو یا مر جاؤ‘‘ کا حاصل حصول، ’’بھاگو اور جان بچاؤ‘‘، نیا ٹرینڈ ’’گولی کیوں چلائی‘‘ سوشل میڈیا پر چھا گیا۔ پوچھنا بنتا ہے کہ ڈی چوک ایسے وقت کیوں گئے تھے جبکہ بیلاروس کا صدر مع 70رکنی وفد وزیر اعظم ہاؤس میں موجود تھا۔ کفن پہن کر اسلام آباد چڑھائی کی بڑھک، ’’گھر والوں کو بتا دیا کہ واپس نہ آئے تو ہمارے جنازے پڑھ لینا‘‘۔

 اب جبکہ قومی قیادت باجماعت باحفاظت اپنے اپنے گھر واپس، کفن اُتار کر شلوار قمیض دوبارہ زیب تن کر چکی۔ قطع نظر کہ 26نومبر دھرنا کے وسائل (LOGISTICS) دور دور تک موجود نہیں تھے، یقیناً شر انگیزی نے ہی کام آنا تھا۔ کیا اچھے دن تھے جب جلوس، ریلیوں، دھرنوں کے وسائل (LOGISTICS) دردِ سر نہ تھے کہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ معمولی ذمہ داری اپنے ’’بھاری بھر کم کندھوں‘‘ پر اٹھا رکھی تھی۔ 24نومبر شاید پہلا لانگ مارچ جو بغیر سہارے اپنے کمزور کندھوں پر کیا۔

’’گولی کیوں چلائی‘‘ یا ’’گولی نہیں چلی‘‘، میرے نزدیک دونوں مؤقف مبالغہ آمیز، جھوٹ سے آلودہ ہیں۔ عمران خان کیلئے انسانی جان کی کتنی اہمیت، مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ دو سال پہلے ملتان جلسہ دوران بھگدڑ ہلاکتوں اور زخمیوں کی جو قدر افزائی ہوئی، نہ صرف جلسہ جاری رہا، کسی کا جنازہ پڑھا نہ زخمی کارکنوں کی عیادت کی۔

 سیاسی جلوسوں پر فائرنگ سے بھی وطنی تاریخ لبالب ہے۔ مثال کیلئے بھٹو حکومت کی 23مارچ 1974کو لیاقت باغ میں ولی خان کے جلسے پر گولیوں کی بوچھاڑ، دو درجن کارکنان کی شہادت، 9اپریل 1977قومی اتحاد کے جلوس پر لاہور ہائیکورٹ کےسامنے فائرنگ (بنفس نفیس جلوس کا حصہ) 9افراد کی شہادت درجنوں زخمی، درجنوں ایسے واقعات کالم میں سمیٹنا مشکل ہے۔ 

’’مارو یا مر جاؤ‘‘ مارچ سے پہلے عمران خان احتجاجی ناکامیوں سے مزین، ہر احتجاج PTIسیاست کو نقصان پہنچا گیا، سبق نہیں سیکھا۔ ناکامیوں کے بھرپور تجربہ کے باوجود بلکہ تازہ بہ تازہ آخری پتہ کھیلنے کا اعلان، اپنے ہاتھوں سے اپنی سیاست کو زندہ یا مردہ درگور کرنا ہی ہے۔

آخری پتہ! 14دسمبر تک 2مطالبات، (عمران خان کی رہائی اور 9مئی 2023/ 26نومبر پر جوڈیشل کمیشن) نہ مانے گئے تو ’’سول نافرمانی اور ترسیلات زر رُکوانا‘‘،24 نومبر تازہ بہ تازہ ناکامی کے بعد بھی کس گھمنڈ پر نیا اعلامیہ، سمجھ کے کسی خانے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ اب تک ایک بات راسخ، وطن عزیز کی ساکھ اور معیشت پر حملہ عمران خان کی احتجاجی سیاست کا جزو لاینفک بن چکا ہے۔ ہر مارچ میں ایک قدر مشترک، موصوف کی سیاست پسپا ہوئی، ہر بار ہزیمت اٹھائی۔ 9مئی 2023کو عمران خان کی گرفتاری پر ردعمل میں ہزاروں گرفتار، 24نومبر عمران خان اور 9 مئی کے قیدیوں کو ہی رہا کروانے آئے تھے۔ حاصل حصول، بقول چیئرمین PTI بارہ ہلاکتیں ( 4/5سے زیادہ کے کوائف موجود ہی نہیں ) مع 1500گرفتاریاں دے کر بھاگنا پڑا یعنی کہ لینے کے دینے پڑے ، ہر بار گھاٹے کا سودا کیا۔

ایک طرف غیر مشروط مذاکرات، دوسری طرف انہی تاریخوں میں سول نافرمانی اور غیرملکی ترسیلات زر رُکوانے کا الٹی میٹم، عمران خان کی دوغلی سیاست ہی متحمل ہو سکتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے جب سے جنرل فیض حمید کو گرفتار کیا، PTI صفوں میں بے چینی بڑھ گئی۔ چند دن پہلے جنرل فیض حمید پر فردجرم عائد یعنی کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنا آخری پتہ کھیل دیا۔

ISPR اعلامیہ میں دل دہلانے کو بہت کچھ ملفوف، 50کے لگ بھگ سیاستدانوں سے جنرل فیض کے رابطے قابل ذکر ہیں۔ جنرل فیض پاکستانی تاریخ کا ایک گھناؤنا کردار ضرور، سیاستدانوں سے رابطے کسی طور جرم نہیں بلکہ انکا کریڈٹ ہے۔ سیاسی انجینئرنگ، جوڑ توڑ ہماری اسٹیبلشمنٹ اس کاروبار میں دہائیوں سے ملوث، آج بھی سکہ رائج الوقت ہے۔ جنرل فیض کا واحد جرم جو اس ممد ومعاون کو تختہ دار تک رسائی دے گا، وہ یکم نومبر 2023کا لانگ مارچ ہے۔ جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی رُکوانا تھا۔

فیض ٹیم نےجان پر کھیل کر اپنے ادارے کا نظام تلپٹ کرنے کی جسارت کی۔ مقصد لاقانونیت پھیلا کر ملک میں مارشل لا لگوانا تھا۔ سارے جتن اپنے ہی ادارے کیخلاف براہِ راست حملہ تھے۔ فوج کی روح اور جان اسکا ڈسپلن، راولپنڈی سازش کیس 1951کے بعد شاید دوسری بار ڈسپلن پر ایسا حملہ ہوا۔ 

علاوہ ازیں GHQ پر عمران خان کی چڑھائی، عمران خان کا صدر علوی سے مل کر نوٹیفیکیشن سے کھیلنا، اگر فیض عمران NEXUS پر اس خانے میں گرفت نہ ہو پائی تو خاطر جمع رکھیں باقی تمام کیسز بشمول سانحہ 9 مئی پر تادیبی کارروائیاں بے اثر رہنی ہیں۔ اب جبکہ عمران خان سیاست کا TITANIC اسٹیبلشمنٹ کے برفانی تودے سے ٹکرا چکا ہے، آنیوالے دن لرزہ براندام رکھیں گے۔ ایسے میں بیرسٹر گوہر کی مذاکرات کی پیشکش، وطنی سیاسی استحکام میں مددگار بن سکتی ہے۔ 

میرے نزدیک چیئرمین PTI کا بروقت فیصلہ اور ایک احسن قدم ہے۔ ایک اہم خبر اقتدار کی غلام گردش میں اور بھی، PTI پس پردہ PPP سے معاملات طے کر کے شہباز حکومت گرانے کے چکر میں مصروف عمل ہے، میرے نزدیک خوش آئند ہے۔ شہباز پرواز کی ایسی کریش لینڈنگ ہو بھی جائے تو ایسی قربانی سیاسی استحکام کیلئے تریاق ثابت ہو گی۔ بہر صورت، وطنی صورتحال فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ باقی رہے نام اللّٰہ کا!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔