گندم کا بحران

قلت خوراک ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ افریقہ کے ممالک میں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ وہاں خوراک کی قلت کا سامنا رہتا ہے مگر پاکستان جیسے زرخیز ملک اور جہاں ایک طویل نہری نظام موجود ہو اور صحرا نہ ہونے کے برابر ہو ںوہاں خوراک کی قلت جیسے مسائل سمجھ سے بالاتر ہیں کیوں کہ پاکستان نے 2023میں 27.5ملین ٹن ریکارڈ گندم کی پیداوار کی ہے لیکن اپریل 2024میں اگلی فصل تک پاکستان کی اپنی طلب کو پورا کرنے کے لئے اسے گندم درآمد کرنے کی ضرورت پڑے گی۔

یہ ہی حال سنا ہے چینی کا ہے کیوں کہ کچھ ماہ پہلے تک وافر چینی موجود ہونے کے باوجود مارکیٹ سے چینی غائب ہونا شروع ہوگئی لیکن گندم کی فصل تو گزشتہ سال بہت اچھی ہوئی تھی اور ریکارڈ پیداوار کے باوجود گندم باہر سے منگوانا پڑے گی، کہا جارہا ہے ریکارڈ ذخائر میں تقریبا 2.6ملین ٹن کمی واقع ہوئی ہے،مگر ریکارڈ گندم پیداوار کے باوجود کچھ گندم پہلے ہی درآمد کی جا چکی ہے، لیکن اس کی مزید ضرورت ہے، اگر حکومت اپنے فیصلوں میں تاخیر کرتی ہے تو آنے والے دنوں میں مارکیٹ میں ایک بار پھر گندم کا دستیاب ہونا سوالیہ نشان ہوگا۔

گندم کا بحران ذخیرہ اندوزی ، اسمگلنگ کی وجہ سے کسی بھی حکومت کے لئے سردرد بن سکتا ہے، گندم باہر سے منگوانے کےلئے ڈالر بھی درکار ہیں جو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ گندم کی حکومت کی امدادی قیمت سندھ میں چار ہزارروپے اور پنجاب میں تین ہزار نو سوروپے ہے۔

صوبائی فوڈ ڈیپارٹمنٹ اور پاکستان زرعی اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن ( پاسکو ) کسانوں سے کافی گندم خریدنے میں ناکام رہا.،اس کی وجہ یہ تھی کہ کسانوں کو حکومت کی شرح سے زیادہ مارکیٹ میں قیمت مل رہی تھی لہٰذا انھوں نے حکومت کو دینے کے بجائے مارکیٹ میں گندم فروخت کی،اب ، کسانوں اور تاجروں کے پاس بہت ساری گندم ہے ، لیکن وہ اسے زیادہ قیمتوں پر بیچنے کے لئے ذخیرہ کئے ہوئے ہیں،جب قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی تو مزید گندم مارکیٹ میں آجائے گی۔

 لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کیا کررہی ہے کیا حکومت ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کوئی اقدام اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے ؟ کیوں کہ حکومت کوئی بھی ہو وہ گندم درآمد کرنا آسان سمجھتی ہے نہ کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرنا، اور درآمد گندم ڈالر کے لحاظ سے ہوگی ، جس سے ملک پر اضافی بوجھ پڑے گا،اس کے بجائے اگر وہ مقامی لوگوں کے خلاف اقدامات اٹھا کر ایسے فیصلے کرے جس سے ذخیرہ کی ہوئی گندم مارکیٹ میں آجائے تو ملکی خزانے کو تباہی سے بچایا جاسکتا ہے، گندم کےایسے ریٹس مقرر کئےجائیں کہ جس کے پاس جتنی زیادہ گندم ہوگی اس کو ہر اضافی من پر 1000اضافی قیمت دی جائے گی تو آپ خود دیکھیں گے کہ کیسے گندم مارکیٹ میں آتی ہے۔

اس کے علاوہ ، سارا لین دین مقامی کرنسی میں ہوگا جس سے ڈالر پر کم بوجھ آئے گا۔ ہندوستان روس سے آٹھ سے نو سو ملین ٹن گندم درآمد کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو دونوں حکومتوں کے مابین براہ راست معاہدے کے ذریعے کم قیمت پر ہے، ہندوستان کی گندم کی کھپت کا تخمینہ 2023کے لئے 108ملین ٹن تھا ، جبکہ اس کی پیداوار 112ملین ٹن تھی تاہم مہینوں کے اندر گندم کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے ، اور ماہرین نے تجویز پیش کی ہے کہ تقریبا چار ملین ٹن گندم کی درآمد سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے. اس کے بجائے ہندوستانی حکومت نے دو بار درآمد کرنے کا فیصلہ کیایہ ہندوستان اور روس کے مابین اب تک کا سب سے بڑا اناج معاہدہ ہوگا۔

 ہندوستان کی بڑی خریداری عالمی سطح پر دستیاب گندم کی مقدار کو متاثر کرسکتی ہے ، اور اس کا اثر عالمی منڈی میں قیمتوں پر بھی پڑ سکتا ہے پاکستان کو اگر گندم درآمد کرنی ہے تو وقت پر کر لے یا پھر مقامی ذخیرہ اندوزوں کے راہ راست پر لائے، گندم میں خود کفیل ہونا کوئی مشکل کام نہیں یہ کام صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں ہوچکا ہے اور دوبارہ بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے ہمیں اسلام آباد میں بیٹھی درد سر بیوروکریسی سے جان چھڑانا ہوگی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔