بلاگ
Time 27 ستمبر ، 2023

خدا کرے ، ورلڈ کپ میں بابر اعظم کا نمبر ون رہنے کا بھرم نہ ٹوٹے !

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

'سر آپ 'فور' بہت نیچے لے گئے ہیں ، میرے حساب سے لیں تو انشااللہ نمبر ون ہی آئیں گے'، یہ وہ جملے تھے جو پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی زبان سے اس سوال پر نکلے جب صحافی نے یہ پوچھا کہ سابق جنوبی افریقی کرکٹر ہاشم آملا نے پاکستان کو ٹاپ فور میں شامل کیا ہے تو کیا آپ ٹاپ فور میں آئیں گے یا پھر فائنل جیتنا ہے۔

 اس پر بابر اعظم کا ردعمل ایسا ہی نظر آیا جیسے وہ میدان میں بیٹنگ کے لیے قدم رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اللہ کرے بھارتی سرزمین پر گرین شرٹس کی کارکردگی بھی ایسی ہی ہو اور بابر اعظم کا بھرم نہ ٹوٹے اور قومی ٹیم 'بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے' کے مترادف وطن نہ لوٹ آئے.

 یہ خدشات اور شکوک و شبہات ایشیا کپ 2023 میں قومی ٹیم کی پہلے روایتی حریف بھارت اور  پھر  ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی کرنیوالی ٹیم سری لنکا کیخلاف بری پرفارمنس کے بعد ہر مداح  سابق کرکٹرز اور تجزیہ کاروں کے دل میں گھر کر گئے ہیں۔ سونے پر سہاگا ڈریسنگ روم میں فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کے ساتھ کپتان بابر اعظم کی تلخ کلامی پر بھی کپتان نے اعترافی بیان دے دیا ہے۔

قطع نظر اس کے، کہ وہ شاہین آفریدی کے عزت کرنے کی بات بھی کہہ گئے ، جس کا مطلب یہ ہے دال میں کچھ کالا ضرور تھا جسے شاہین آفریدی نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک تصویر کے ذریعے زائل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن اس تصویر میں شطرنج کی وہ بازی بھی دلچسپی کی تمام رعنائیوں کے ساتھ جلوہ افروز تھی جہاں صاف نظر آرہا تھا کہ شاہین آفریدی  شطرنج کی اس بساط میں بابر اعظم کو شہ مات دے چکے ہیں۔ یہ بساط اسی صورت ہی الٹ سکتی ہے جب بابر اعظم کا یہ دعویٰ کہ وہ نمبر ون پر ہی آئیں گے درست ثابت ہو ۔

جس طرح بابر اعظم الیون ایشیا کپ 2023 میں بھارت اور سری لنکا کیخلاف اپنا دھڑن تختہ کرواچکی تھی اس کے بعد سوشل میڈیا ، اخبارات اور نیوز چینلز پر کرکٹ پنڈت ٹیم میں تبدیلیوں کے خواہش مند بھی تھے اور چاہتے تھے کہ ناکام رہنے والے فخر زمان اور نائب کپتان شاداب خان کی جگہ کسی اور موقع دیا جائے  لیکن چیف سلیکٹر انضمام الحق نے جب ورلڈ کپ 2023کے لیے قومی اسکواڈ کا اعلان کیا تو اس میں انجرڈ نسیم شاہ کی جگہ حیران کن تبدیلی حسن علی کی صور ت میں ملی۔

 صحافیوں کے وجہ جاننے پر چیف سلیکٹر نے یہ دعویٰ کیا کہ حسن علی تجربے کار ہونے کے ساتھ ساتھ نئی گیند سے بولنگ بھی کرسکتے ہیں  اور انضمام الحق یہ بھی کہہ گئے کہ اس میں بابر اعظم اور کوچ مکی آرتھر کی رضامندی شامل ہے۔ جب یہی سوال بابرا عظم کے گوش گزار ہوا تو وہ حسن علی کی تجربے کاری کے معترف تو نکلے لیکن اس سے صاف مکر گئے کہ حسن علی نئی گیند سے بولنگ کریں گے بھی یا نہیں۔ بابر اعظم کا کہنا تھا کہ بھارت جاکر اور ہر میدان کی کنڈیشن دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ کرنا کیا ہے ، اس سے چیف سلیکٹر اور کپتان کی تال میل کا خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ امر بھی قابل بحث ہے کہ حسن علی نے ایسا کیا کارنامہ انجام دیا کہ وہ سری لنکن پریمیئر لیگ کے 16 ویں بہترین بولر ہوکر ٹیم میں منتخب ہوگئے اور عماد وسیم کیریبئن پریمیر لیگ میں 313 رنز بناکر تیسرے ٹاپ اسکورر اور 14وکٹیں لے کر ساتویں بہترین بولر ہونے کے باوجود  چیف سلیکٹر انضمام الحق اور کپتان بابر اعظم کی آنکھوں سے اوجھل رہے۔

فخر زمان کی جگہ کیربیئن پریمیئر لیگ میں 478 رنز بنانے والے اوپنر صائم ایوب ، جنہوں نے گیانا ایمزون واریئرز کو پہلی مرتبہ چیمپئن بنوادیا ،کس طرح  پاکستان کے دو نامور کرکٹرز کا خون نہ گرما سکے  جس کے بعد وائس آف امریکا میں صحافی عمیر علوی کے آرٹیکل کی ہیڈ لائنز انصاف کرتی نظر آرہی ہے ،  جو انہوں نے ایک ایکس اکاؤنٹ سے لی کہ 'دوست ہوں تو حسن علی کے دوست جیسے ، ورنہ نہ ہوں'۔

ورلڈ کپ کے لیے کوئی کیمپ کیوں نہیں لگایا گیا؟ تو اس پر بھی بابر اعظم کا جواب مضخکہ خیز ہی لگا، ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑی ڈھائی ماہ سے کرکٹ کھیل رہے ہیں، وہ تھکن کا شکار ہوگئے تھے، انہیں آرام دینا ضروری تھا تاکہ وہ سات سے 8 دن آرام کریں اور ذہنی اور جسمانی طو رپر فٹ ہوجائیں۔

کپتان بابر اعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کا دھیان بھی رکھیں، کوشش کریں کہ کھلاڑیوں کو تھکن بھی نہ ہو ، تاکہ وہ تروتازہ ہوکر میدان میں آئیں لیکن سری لنکا کیخلاف ٹیسٹ سیریز جولائی کے آخری ہفتے میں ختم ہوئی ، اس کے بعد پاکستان کا اگلا اسائمنٹ افغانستان کیخلاف ون ڈے سیریز اور پھر 30 اگست سے پاکستان اور سری لنکا میں ہونے والا ایشیا کپ تھا ،اس دوران پاکستانی کھلاڑیوں کے پاس ایک ماہ کا وقت تھا لیکن نہ کپتان بابر اعظم نے یہ مناسب سمجھا کہ وہ خود بھی آرام کریں نہ کھلاڑیوں کو آرام کروانے کے لیے ٹیم مینجمنٹ اور پی سی بی سے مشاورت کی اور اس دوران پاکستان ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی لیگز کھیلتے رہے ، جس کے لیے انہیں مسلسل سفر میں رہنا پڑا جو بابر اعظم کے آرام کرنے کے دعویٰ کو تار تار کررہا ہے۔

ایشیا کپ میں شکست کے بعد پہلی مرتبہ میڈیا کا سامنا کرتے ہوئے کپتان پاکستان کرکٹ ٹیم بابر اعظم کنفیوژن کا شکار نظر آئے، یہ وہی کپتان ہیں جو ایشیا کپ میں میچ کے آغاز سے ایک دن قبل ہی اتنے بااعتماد ہوتے تھے کہ اپنی پلیئنگ الیون کا اعلان کردیا کرتے تھے ، اگرچہ سری لنکا میں بارشوں کی وجہ سے کنڈیشن کی تبدیلی کا سب سے زیادہ امکان موجود تھا لیکن بابر اعظم نے طے کرلیا تھا کہ یہی کھلاڑی اگلے دن کسی بھی حریف کے ساتھ میدان میں اتریں گے  لیکن اب وہ اس مخمصے کا شکار ہیں کہ ٹیم کامبی نیشن کیا ہوگا ، ان کی ساری پریس کانفرنس میں یہی روداد سنائی دی کہ بھارت جاکر ہی فیصلہ کریں گے  لیکن دوسری جانب یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ بڑے ایونٹس میں پاکستان کرکٹ کی تاریخ رہی ہے کہ وہ شکستوں کا بوجھ لیے میدان میں جاتی ہے اور پھر فاتح عالم کا اعزاز لیے واپس آتی ہے ،چاہے وہ ورلڈ کپ 1992 ہو ،یونس خان کی قیادت میں کھیلے جانے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2009 یا چیمپئنز ٹرافی 2017، لیکن اس کے لیے انہیں کسی بڑے دھچکے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم تو بابر اعظم الیون کے لیے یہی دعا کریں گے کہ

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے

کے تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔