بلاگ
Time 03 اکتوبر ، 2023

صرف انصاف!

میں نے پچھلے کالم میں برطانیہ کی سماجی زندگی پر تنقید کی تھی مگر برطانوی نظام کی بات نہیں کی تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک پھیکی سی سوشل لائف گزارنے پر لوگ مجبور کیوں ہیں۔ آخر لوگ ٹیکسوں اور جرمانوں کا بوجھ برداشت کیوں کرتے ہیں۔ تھوڑی سی بھی اووراسپیڈنگ سے خوف کیوں کھاتے ہیں۔ چلیں آج سگریٹ کی بات نہیں کرتے ورنہ ہمارے کچھ مہربان کہیں گے کہ سارا رولا سگریٹ کا ہے۔

 پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ آخر یہ لوگ مصروف ترین زندگی کیوں گزارتے ہیں، مشینوں کی طرح کیوں کام کرتے ہیں اور جب ایک معاشرے میں لوگ مشینوں کی طرح کام کریں اور ان کی سوشل لائف نہ ہونے کے برابر ہو اور وہ سماجی رابطوں میں کمی کے سبب مختلف بیماریوں میں مبتلا بھی ہوں تو پھر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود برطانیہ میں نظام کامیابی سے کیسے چل رہا ہے۔ اس کا بڑا سادہ سا جواب ہے۔ برطانیہ کا پورا نظام انصاف کی بنیاد پر کھڑا ہے۔

 یہاں لوگوں کو یہ خوف نہیں کہ ان کے گھر پر کوئی قبضہ کر لے گا پھر پولیس بھی قبضہ گروپ کی محافظ بن جائے گی اور عدالت سے فیصلہ بھی قابضین کے حق میں آئے گا لیکن برطانیہ میں ایسا نہیں ہے، کوئی کسی کے گھر پر قبضہ کرنے کا تصور نہیں کر سکتا۔ یہاں برطانیہ میں تلاش کے باوجود پولیس کا کوئی ناکہ نہیں مل سکا۔ جب پولیس ناکہ نہیں مل سکا تو پھر فوجی چوکیوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جگہ جگہ ناکے لگے ہوتے ہیں، کہیں کسی کا ناکہ تو کہیں کسی اور کا ناکہ، ہر ناکے سے گزرنے والے کو آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے، کوئی پتہ نہیں ناکے والے کب آپ کی بے عزتی شروع کر دیں، کب انا کی تسکین کیلئے یہ کہہ دیں، گاڑی میں سے تمام افراد نکلو! باہر کھڑے ہو جاؤ، ہم چیک کریں گے۔ اگر کسی نے انکار کیا تو نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہو جائیں! 

یہ تمام جملے سرکاری اہلکار اس طرح ادا کرتے ہیں جیسے وقت کے چھوٹے فرعون کیا کرتے ہیں۔ اگر ناکے سے گزرتے وقت چھوٹے فرعونوں کو آپ کی شکل پسند نہ آئے یا آپ کی مخالفت میں انہوں نے کہیں سے کچھ پکڑ رکھا ہو تو وہ آپ کی گاڑی پر گولیاں برسا دیں گے اور پھر سرکاری موقف یہ ہو گا، "اس نے گاڑی نہیں روکی تھی، ہمیں کیا پتہ اس میں دہشت گرد جا رہے تھے، ڈاکو تھے یا کون تھے۔ یہی موقف عدالتوں کے روبرو ہوتا ہے اور حیرت ہے کہ یہ موقف جیت بھی جاتا ہے۔ 

پاکستان میں عام لوگوں کے ساتھ پولیس کا رویہ وہی ہے جو کسی غنڈے اور بدمعاش کا عام لوگوں سے ہوتا ہے مگر برطانیہ میں ایسا نہیں۔ کوئی پولیس اہلکار آپ کو بلا وجہ تنگ نہیں کر سکتا۔ ناکوں سے آزاد ملک میں ہر کوئی قانون کے مطابق چلتا ہے اور اگر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرے تو وہ عدالت سے بچ نہیں سکتا۔ برطانیہ میں سول معاملات سیدھے عدالتوں میں جاتے ہیں، کہیں پولیس مداخلت نہیں کرتی۔ پاکستان میں پولیس جھوٹے کیس بنانے کی ماہر ہے مگر یہاں جھوٹے مقدمے کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ 

میں نے پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان بہت اچھا ملک ہے مگر اس کا نظام درست نہیں ہے۔ پاکستان میں لوگ اغوا ہو جاتے ہیں، بڑے بڑے لوگ اغوا ہو جاتے ہیں کسی کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس نے اغوا کیا ہے۔ اغوا کار دندناتے پھرتے ہیں، کوئی اغوا کاروں سے پوچھتا ہی نہیں۔ عدالتوں کی ڈانٹ ڈپٹ کا کسی پر اثر ہی نہیں ہوتا۔ برطانوی معاشرے میں بندے اغوا کرنے کیلئے ویگو ڈالے نہیں آتے اور نہ ہی پولیس کے روپ میں درندے لوگوں کے گھروں میں داخل ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان کا کوئی گھر، کوئی گلی، کوئی محلہ حفاظت کے نام پر مامور خونخوار سرکاری اہلکاروں سے محفوظ نہیں ہے۔ 

لوگوں کے گھروں میں آدھی رات کو چھاپے مارے جاتے ہیں، عورتوں اور بچوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، یوں ہماری پولیس معاشرے میں خوف کی علامت بن چکی ہے۔ اب تو پولیس کے ساتھ اور لوگوں کا نام بھی آتا ہے۔ پاکستان میں پولیس یا ایف آئی اے کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، برطانیہ میں یہ سب کچھ نہیں۔ یہ بات میرے علم میں ہے کہ پاکستان کے کئی شہروں میں مختلف اداروں نے علاقے بانٹ رکھے ہیں، وہ ان علاقوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں اور پھر یہ بھتہ اوپر پتہ نہیں کہاں کہاں تقسیم ہوتا ہے۔

 اس کے مقابلے میں برطانیہ میں نہ اداروں میں علاقے تقسیم ہوتے ہیں نہ بھتہ لینے کا رواج ہے اور نہ کہیں بھتہ اوپر تقسیم ہوتا ہے۔ برطانیہ کو انصاف کے نظام نے بچایا ہوا ہے۔ یہاں حضرت علی ؓ کی یہ بات یاد آتی ہے کہ’’کوئی بھی معاشرہ انصاف کی بنیاد پر تو قائم رہ سکتا ہے، ظلم کی بنیاد پر نہیں‘‘۔ بد قسمتی سے پاکستانی معاشرے میں ظلم ہے اور برطانوی معاشرے میں انصاف ہے، پاکستانی معاشرے کا عکس سرور ارمان کے اشعار میں نظر آتا ہے کہ عدل کے معیار میں آ جائیں گی تبدیلیاں بے گناہی لائق تعزیر کر دی جائے گی ہر کلائی ہر تمنا ہر حقیقت ہر وفا آشنائے حلقہ زنجیر کر دی جائے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔