اگلا وزیراعظم کون؟

حالات جس سمت جارہے ہیں ان سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہونیوالے عام انتخابات میں دو بڑے سیاستداں وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہونے سے قانونی سقم لگا کر روک دیئے جائیں گے،جن میں ایک عمران خان جبکہ دوسرے نواز شریف ہیں۔

 تاحال دونوں رہنماؤں کے پاس الیکشن میں حصہ لینے کی آزادی موجود نہیں ہے لہٰذا اگر اگلے عام انتخابات سے قبل یہ حتمی فیصلہ ہوگیا کہ میاں نواز شریف اور عمران خان الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے تو ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو متبادل قیادت سامنے لاکر الیکشن مہم چلانی ہوگی ، لہٰذا تحریک انصاف کے پاس تو کوئی ایسا بڑے قد کا لیڈر نظر نہیں آتا جس کو سامنے لاکر تحریک انصاف الیکشن لڑے ، کامیابی بھی حاصل کرے اور نئے لیڈر کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ دلا سکے ، جبکہ مسلم لیگ ن کے پاس مریم نواز شریف کی شکل میں ایک لیڈر موجود ہیں۔جنھیں میاں نواز شریف کی حمایت حاصل ہوگی اور اگر میاں نواز شریف کو الیکشن میں حصہ لینے کا موقع نہ مل سکا تو وہ انتخابی مہم میں مریم نواز شریف کو اگلا وزیر اعظم بنانے کی بھرپور کوششیں کریں گے جبکہ ن لیگ کی اس مہم میں میاں شہباز شریف سمیت پوری پارٹی ان کے ساتھ ہوگی۔

 دوسری جانب مریم نواز شریف پچھلے دس سال میں اپنی ولولہ انگیز قیادت اور جاندار تقریروں ، جیل میں قید وبند کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد ایک قومی لیڈر بن چکی ہیں اور اپنی ولولہ انگیز قیادت کے سبب اکیلے ہی جلسوں میں ہزاروں کا مجمع جمع کرلیتی ہیں ، لہٰذا عمران خان کی غیر موجودگی کے بعد مسلم لیگ ن ہی ملک کی سب سے بڑی جماعت نظر آتی ہے ۔

 مریم نواز شریف کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنی جاندار سیاست کے سبب پیپلز پارٹی کو ، جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے سکڑتے ہوئے صرف صوبہ سندھ تک محدود ہوچکی تھی ، اپنےمدبرانہ سیاسی فیصلوں اور عالمی سطح پر اپنی عقل و دانش سےایک بار پھر قومی جماعت میں تبدیل کردیا ہے ۔

 یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ جس طرح ن لیگ سندھ میں کامیابی کیلئے تمام کوششوں کے باوجود ناکام نظر آتی ہے اسی طرح پیپلز پارٹی بھی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود پنجاب میں دوبارہ اپنا اثر ورسوخ پیدا کرنے اور ماضی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہی نظر آئی ہے ،تاہم جنوری میں ہونے والے عام انتخابات میں چلنے والی الیکشن مہم یہ بات ثابت کردے گی کہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں کتنی پذیرائی حاصل ہوتی ہے اور مریم نواز شریف کی قیادت میں چلنے والی الیکشن مہم میںن لیگ کو پنجاب کے علاوہ سندھ میں کتنی پذیرائی ملے گی۔

 خاص طور پر بلاول بھٹو کو پوری سیاسی مہم اکیلے ہی اپنے بل بوتے پر ، اپنی مقبولیت کے بھروسے اور اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام پر چلانا پڑے گی جبکہ مریم نواز شریف کے ساتھ پاکستان کے تین دفعہ کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان کے ایک زمانے کے مقبول ترین لیڈر میاں نواز شریف کا ساتھ ہوگا ،بلاول بھٹو زرداری اپنی بردباری اور عقل و دانش سے بھرپور گفتگو کے سبب عالمی فورمز پر کئی عالمی رہنمائوں کو اپنا گرویدہ بنا چکے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی سابق حکومت میں بطور وزیر خارجہ پاکستان بلاول بھٹو نے دنیا بھر میں اپنی سیاسی دانش کا بہترین تاثر چھوڑا ہے جو آنے والے الیکشن میں ان کے کام آئے گا ۔

 صورتحال یہ ہے کہ میاں نواز شریف اکیس اکتوبر کو وطن واپس آرہے ہیں ن لیگ کی پوری کوشش ہوگی کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کی سزا ختم ہو اور میاں نواز شریف اپنا سیاسی سفر وہیں سے شروع کریں جہاں سے انھیں وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر روکا گیا تھا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان آنے کے بعد انتخابات سے قبل جومختصر وقت بچا ہے میاں نواز شریف اس وقت میں ان قانونی رکاوٹوں کو کیسے دور کرتے ہیں ؟ کیونکہ ن لیگ کا اصرار ہے کہ میاں نواز شریف الیکشن لڑنے کے اہل ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتوں اور قانونی ماہرین کے مطابق میاں نواز شریف کو عدالت سے فیصلہ لینا ہوگا۔ دیکھتےہیں کہ اگلے عام انتخابات میں کون کون سی جماعت کے کون کون سے لیڈر وزارت عظمیٰ کے حصول کیلئے میدان میں اترتے ہیں اور کون سی جماعت کا کونسا لیڈر پاکستان کو معاشی دلدل سے نکالنےکیلئے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھےگا ؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔