Time 15 نومبر ، 2023
پاکستان

فیض آباد دھرنا کیس: ’سب کو معلوم ہے کون سب کچھ کررہا تھا لیکن نام لینے کی ہمت کسی میں نہیں‘

سب سے زیادہ قابل احتساب ہم ہیں، یہاں یہ بھی فیصلہ ہوتا ہے کہ کون سا کیس مقرر ہونا ہے اورکون سا دبانا ہے: چیف جسٹس پاکستان/ فائل فوٹو
سب سے زیادہ قابل احتساب ہم ہیں، یہاں یہ بھی فیصلہ ہوتا ہے کہ کون سا کیس مقرر ہونا ہے اورکون سا دبانا ہے: چیف جسٹس پاکستان/ فائل فوٹو

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ سب کو معلوم ہے کون سب کچھ کررہا تھا لیکن نام لینے کی ہمت کسی میں نہیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہرمن اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل، شیخ رشید کے وکیل اور خود شیخ رشید عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے شیخ رشید سے سوال کیا کہ آپ نے نظرثانی دائر کیوں کی تھی؟ اس پر ان کے وکیل نے کہا کہ ایجنسیوں کی رپورٹ سے کچھ غلط فہمیاں ہوئیں جس پرنظرثانی دائرکی۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ پاکستان مذاق تو نہیں ہے، اس ملک کو مذاق نہ بنایا جائے کہ جو دل چاہے کریں، پورے ملک کو نچوایا پھراوپرسے حکم آیا تو نظرثانی واپس لینے کا کہہ دیا، نظرثانی دائرکرنا تو ٹھیک ہے مگر4 سال بعد واپس لینا عجیب فیصلہ ہے۔

عدالت نے شیخ رشید کی نظرثانی درخواست واپس لینے کی بنیاد پرخارج کردی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ججز سمیت سب لوگ قابل احتساب ہیں، ایسا تاثرہے کہ سپریم کورٹ بھی باہر سے کنٹرول ہورہی ہے، کہا جاتا ہے کہ فلاں کیس میں فلاں فیصلہ ہوگا، عدالت میں سچ کوئی نہیں بولتا کہ کس کے کہنے پرنظرثانی درخواست کی، نفرتیں پھیلاکرپھر لوگ خود پیچھے ہٹ جاتے ہیں، سڑکیں بند کرنے اوراملاک جلانے والوں کو ہیروکہا جاتا ہے، پہلے دھرنےکے حق میں بیانات دیے، اب عدالت آکرکہہ رہےہم کیس نہیں چلاناچاہتے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ملک کی مزید خدمت کریں گے اگر موقع ملا تو؟ اس پر شیخ رشید جواب دینے کیلئے روسٹرم کی طرف بڑھے تو چیف جسٹس نے روک دیا اور کہا کہ ہم آپ سے نہیں آپ کے وکیل سے بات کررہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آپ پھرسے عوام کی خدمت کریں گے یا گھربیٹھ کراللہ اللہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟ یہاں کیس مقرر ہونا بھی ایک فیصلہ ہوتا ہے، میں توسمجھتا ہوں سب سے زیادہ قابل احتساب ہم ہیں، یہاں یہ بھی فیصلہ ہوتا ہے کہ کون سا کیس مقرر ہونا ہے اورکون سا دبانا ہے، یہاں یہ طے کیا جاتا ہے کہ آج درخواست آئی ہے توکل مقررکرنی ہے، عدالتیں اب ایسے نہیں چلیں گی۔

شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ آج کل تو عدالتوں کا یہی حال ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل نہیں، یہ مارچ 2018 کی بات ہورہی ہے، فیصلوں سے پہلے بھی فیصلے ہوتے ہیں؟،جو یہ سمجھا جاتا ہے عدالتیں کنٹرول ہورہی تھیں، یہ کیس اس کی سب سے بڑی مثال ہے، معلوم سب کو ہے کہ کون سب کچھ کررہا تھا لیکن نام لینے کی ہمت کسی میں نہیں، ملک کی دنیا میں جگ ہنسائی کا سامان بنادیا گیا، ملک کا دشمن کوئی بیرونی نہیں، ملک کے اندرسب خود ہی دشمن ہیں۔

اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شیخ رشید کا نام آئی ایس آئی کی رپورٹ میں تھا، شیخ رشید خود پارلیمنٹیرین تھے،کیوں آئی ایس آئی کےخلاف کارروائی نہیں کی؟

اس دوران اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں پیش کردیا اور بتایا کہ انکوائری کمیشن فیض آباد دھرنے کے محرکات کی تحقیقات کرے گا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ انکوائری کمیشن میں وزارت دفاع کے کسی نمائندے کوکیوں شامل نہیں کیا گیا؟ حکومتی کمیشن یا تو آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ہے یا پھر نئی تاریخ لکھے گا، ہمیں امید ہے انکوائری کمیشن آزادانہ اور شفاف تحقیقات کرےگا، ٹی او آرز میں یہ کیوں نہیں کہ کیسے ایک ساتھ 9 نظرثانی درخواستیں دائرکی گئیں؟ ٹی او آرز میں لیں کہ ایک ساتھ نظرثانی درخواستیں دائرہونا حادثہ تھا یاکسی ہدایات پرہوا؟

عدالت نے وفاقی حکومت کو انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز میں ایک اضافہ کرنے کی ہدایت کی۔

مزید خبریں :