کمزور بیساکھیوں پر کھڑے چیئرمین ذکاء اشرف کے فیصلے کتنے دیرپا ثابت ہونگے؟

انتخابات کے بعد نئی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی نہ بنی تو وہ پھر پی سی بی ہیڈ کوارٹر سے بے دخل کیے جاسکتے ہیں/فوٹوفائل
انتخابات کے بعد نئی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی نہ بنی تو وہ پھر پی سی بی ہیڈ کوارٹر سے بے دخل کیے جاسکتے ہیں/فوٹوفائل

یہ 17 مئی 2014 کی صبح تھی ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے کے باہر رپورٹرز اور کیمرہ مین ذکاءاشرف کا انتظار کررہے تھے جنہیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بطور چیئرمین بحال کردیا تھا۔

اس موقع پر ذکاءاشرف مسکراتے ہوئے کیمرے کے سامنے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے اور اسے انصاف کی جیت قرار دے رہے تھے  لیکن ان کی یہ شادمانی صرف چند دنوں تک ہی محدود رہی کیونکہ ملک میں تیسری مرتبہ محمد نواز شریف کے وزیرا عظم بننے کے بعد پی سی بی کے چیئرمین شپ کے لیے نجم سیٹھی اور ذکاءاشرف کے درمیان میوزیکل چیئر کا کھیل طویل عرصے تک جاری رہا تھا  لیکن ذکاءاشرف کیخلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی اور ذکاءاشرف کی چھٹی ہوگئی۔

نجم سیٹھی نے پی سی بی میں چارج سنبھالا اور پھر انہیں چیئرمین بننے کے لیے انہیں بہت سے آئینی مراحل کو پورا کرنا پڑا ،یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ چوہدری ذکاءاشرف کا پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلق بہت پرانا ہے، ان کے والد چوہدری محمد اشرف سابق وزیرا عظم ذوالفقار علی بھٹو کے بہت قریبی ساتھی رہے ہیں۔

اسی طرح بزنس فیملی سے تعلق رکھنے والے ذکاءاشرف بھی سابق صدر آصف علی زرداری کے خاص دوستوں میں شمار ہوتے ہیں،چوہدری ذکاءاشرف2014 میں جس طرح چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدے سے ہٹائے گئے، یہ تکلیف شاید ان کے دل میں کسی پھانس کی طرح چھبتی رہی ، اسی لیے جب پی ڈی ایم حکومت بنی اور نجم سیٹھی پھر چیئرمین شپ کے عہدے کے لیے پی سی بی میں موجود رہے تو ذکاءاشرف ماضی کے سارے بدلے پورے کرنے کے لیے تیار نظر آئے،  اس سے قطع نظر کے ان کا مستقبل کیا ہوگا، انتخابات کے بعد نئی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی نہ بنی تو وہ پھر پی سی بی ہیڈ کوارٹر سے بے دخل کیے جاسکتے ہیں۔

لیکن شاید یہ سب خدشات، اقتدار اور لائم لائٹ حاصل والے فرد کے سامنے کوئی معانی نہیں رکھتی، مگر قومی اداروں میں ایسی تعیناتی کا نقصان طویل المدتی بھی ثابت ہوتا ہے، اب ذکاءاشرف کو بطور چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی پی سی بی میں3  ماہ مزید مل گئے ہیں، اور اب وہ پورا نظام کو ری اسٹارٹ کرنا چاہتے ہیں،جس کی وجہ ورلڈ کپ 2023 میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی بدترین کارکردگی اور بابراعظم کی ناقص کپتانی بنی ہے۔

ذکاءاشرف کرکٹ کے میدان کے کھلاڑی نہیں، وہ کوئی کرکٹ آرگنائزرز بھی نہیں رہے، کبھی کسی کرکٹ ایسوسی ایشن سے وابستہ بھی نہیں رہے ، اسی لیے پاکستان کرکٹ میں وہ خود سے زیادہ دوسروں کے مشوروں پر عمل کرتے نظر آرہے ہیں۔

پی سی بی میں عہدہ سنبھالتے ان کا پہلا نعرہ ہی یہ تھا کہ وہ سابق کرکٹرز اور میڈیا کے دوستوں سے مشورے کے بعد ہی فیصلے کریں گے اور ایسا نظر بھی آرہا ہے، چیئرمین ذکاءاشرف ورلڈ کپ کے دوران  پاکستان ٹیم کی پرفارمنس اور انضمام الحق کے ایجنٹ طلحہ رحمانی کے کمپنی میں شیئر کے الزام پر میڈیا میں انٹرویو دیتے رہے، دوران ورلڈکپ ٹیم کی پرفارمنس پر تبصرہ کرنا اور پھر میڈیا ڈپارٹمنٹ سے ای میل جاری کرنے نے  ہرطرف ہیجان برپا کردیا ۔

بات صرف یہیں رک جاتی تو ٹھیک تھالیکن اپنی ٹیم کے کپتان کے واٹس ایپ پیغامات میڈیا کی زینت بنوادینا،صرف جگ ہنسائی کا ہی سبب بن سکتا ہے ، یہ تمام معاملات  ورلڈ کپ کے بعد خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کیے جاسکتے تھےجیسا اب کیا گیا ہے۔

اب ذکاءاشرف نے مکی آرتھر کے معاہدے کی مجبوری کی وجہ سے انہیں برطرف تو نہیں کیا لیکن انہیں قومی ٹیم سے علیحدہ کردیاسابق کپتان محمد حفیظ کو ڈائریکٹر کرکٹ کی ذمہ داریاں دے دیں یونس خان سے ملاقات میں کراچی کرکٹ کا انفراسٹرکچر دینے کی تیاریاں کی جارہی ہیں وہاب ریاض کو چیف سلیکٹر بنایا جارہا ہے سہیل تنویر جونیئر سلیکشن کمیٹی کی سربراہی کریں گے لیکن یہ تقرریاں کتنی دیر پا ثابت ہوں گی کیونکہ چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی ذکاءاشرف خود ہی ان کمزور بیساکھیوں پر کھڑے ہیں ، جو انتخابات ہونے کے بعد ٹوٹ سکتی ہیں ۔

پروفیسر کے نام سے شہرت رکھنے والے محمد حفیظ کا پہلا اسائمنٹ دورہ آسٹریلیا ہوگا  لیکن کسی بھی سطح پر کوچنگ کا تجربے نہ رکھنے والے محمد حفیظ تو کبھی آسٹریلیا میں ٹیسٹ کھیلے ہی نہیں صرف کینگروز دیس میں صرف ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرسکے ہیں ، جہاں ان کی اوسط 17.22 رہی ہےمحمد حفیظ کا نام پروفیسرکرکٹ میں ان کے ماہرانہ مشوروں کی وجہ سے رکھا گیا ہے ، جب ٹیم کے پرفارم نہ کرنے پر ٹی وی چینل پر بیٹھے سابق کرکٹرز ان پر تنقید کریں گے ، جیسا محمد حفیظ خود بھی کرتے رہے ہیں تو کیا وہ 2016ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ناکامی کی طرح پھر ذمہ داری لے کر عہدہ چھوڑ دیں گے۔

وہاب ریاض جو صوبائی نگراں وزیر کھیل بننے سے قبل تک  خود کو پاکستان کی ون ڈے ٹیم میں دیکھنے کے خواہشمند تھے  اب صرف چند ماہ بعد وہ کرکٹ کی سلیکشن اور کھلاڑیوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے یونس خان جو اپنی سخت گیر طبعیت کی وجہ سے پی سی بی سے طویل المدتی معاہدہ نہ کرسکےانہیں ایسے کیا اختیار ملیں گے جو ان کے لیے آسودہ رہیں گے دوسری جانب اگر چیئرمین مینجمٹ کمیٹی ذکاءاشرف کے مستقبل کا فیصلہ انتخابات کے بعد حکومتی ایوانوں سے ہوا تو کہیں ان بڑے عہدوں پر کام کرنیوالے سابق کرکٹرز کا مستقبل بھی تاریک نہ ہوجائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔